ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ


تحریر


تحریر: سیّد لیاقت علی شاہ الموسوی براہ
ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ

الفقّہ الاحوط کے مطابق شاہ سید علیہ الرّحمہ نے فرمایا ہے : کوئی شخص یعنی کوئی بھی مقررومبلّغ کسی ایسے مسئلے کے بارے میں رائے زنی کی جسارت نہ کرے جس پر اُمّت اسلامیہ کا اتفاق نہ ہو اور نہ وہ ایسے مسئلے کے با رے میں لب کشائی کی جسارت کرے جس کی حقیقت کو وہ یقینی طور پر پہچان نہ سکتا ہو۔ پھریہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہر کَس وناکَس بلا خوف وخطر ایسے مسائل کی بحث میں لگے رہتے ہیں جن سے اُمّت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ ایسے لوگوں کے ہاں در حقیقت اس قسم کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت واہلیت بھی نہیں ہوتی۔
الفقّہ الاحوط کے مطابق شاہ سیّد علیہ الرّحمہ نے عام لوگوں کوایسے اختلافی مسائل میں اُلجھنے سے منع فرمایا ہے۔
مرحوم میر سیّد جمال الدین الموسوی [میر واعظ براہ ]سے پہلے کے دور کے حالات و حقیقتوں کاکما حقّہ علم نہ ہونے کی وجہ سے نیز مَا سَلف خدمات سرانجام دینے والے عظیم خُوبیوں او رصلاحیتوں کے مالک بزرگانِ دین و میر واعظین کی دینی خدمات، قربانیوں اور اُن کے دور میں بَرپا ہونے والی مجالس و محافل کی اصل حقیقتوں سے ناآشنا ہونے کی بناء پر سُنی سُنائی ، بے بُنیاد سرابی مفروضوں کو بنیاد بناکر چند قلم کاروں نے بر اہ سے بدعتوں کے خاتمے کا مسحور کُن نعرہ لگا کر حقائق کو مسخ کر کے پیش کیاہے،اور یہ نادان مہربان اپنی نادانیوں کی بنا پر براہ کی پُر امن، مثالی فِضا کو آئندہ وقتوں میں خراب و آلودہ کرنے کاذمہ دار نامزد ہوسکتے ہیں۔ ایسی غیرذمہ دار نہ تحریر یں مذہبی اور علاقائی طور پر ہماری بدنامی کاسبب بنتے ہیں اور اغیار کے سامنے ہمارے اندرونی خلفشار، نااتفاقی اور مذہب کے اندر گروہ بندی ، تقسیم و بے چینی کو طشت ازبام کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ اس طرز کی باتیں اور تحریریں مذہب کا دُکھ درد رکھنے والے تمام نور بخشیوں کیلئے شرمندگی اور تشویش کا باعث ہیں اور قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہیں۔ ماضی کی راکھ کر ید کرید کر آپ اس میں سے کونسی نایاب و انمول شے برآمد کر کے قو م و مِلّت کوتحفہ دینا چاہتے ہیں؟
اپنے میلے کپڑے اغیار کے سامنے لاکر باربار دھونا کونسی اور کہاں کی دانشمندی ہے؟ ایسے بے حقیقت سرابوں کے پیچھے جان کی بازی لگا کر دوڑنے کے بجائے اپنی توانائیوں کو مذہب و مِلّت کی مضبوطی ، استحکام ، اتفاق و اتحاد اور فلاح و بہبودی کے لئے صرف کرے تو بہتر ہوگا۔ میں سید جمال الدّین مرحوم کابھائی ہونے کے ناطے سے ان تمام قابلِ احترام عقل مندوں ، فلاسفروں سے ہاتھ جوڑ کر درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ٹھیک ہے کہ آپ نے میر سید جمال الدّین کی دینی خِدمات اور شخصی خُوبیوں کے حوالے سے مرحوم کے ساتھ محبّت و عقیدت کااظہار کر کے مُستحسن کام کیاہے ۔ اس پر میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کا ایمان و عقیدہ سلامت رکھے (آمین ) لیکن دوسری طرف براہ میں بدعتوں کاتذکرہ فرما کر غم زدہ خاندان کے غموں پر نمک پاشی بھی کی ہے۔ کاش آپ ایسا نہ کرتے اور اُن کی دینی خدمات و قُربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے تک محدود رہتے توکیا ہی اچھا ہوتا ۔ اس طرح راقم بھی قلم اُٹھانے کی زحمت سے محفوظ رہتا۔
میر سیّد جمال الدّین (مرحوم) نے دورانِ حیات کسی موقع پر بھی اِس بات کا اظہار نہیں کیا کہ انہوں نے براہ سے کسی بھی نوعیت کی بدعت کو ختم کیا ہے ۔ اگر اُن کی حیات میں براہ سے بدعتو ں کے خاتمے سے متعلق کوئی سوال کرتا تو مرحوم سید صاحب اُس سوالی کی بھر پور سرزنش کرتے۔سید جمال الدّین سے قبل ان کے والد بزرگوار کے دورِ میرواعظی میں بلتستان بھر میں رائج طور طریقوں کے مطابق براہ میں بھی مجلسیں برپاہوتی تھیں۔ اس سے ہٹ کر براہ میں خاص نوعیت کی کوئی مختلف مجلسیں برپا نہیں ہوتی تھیں۔ اگر خدانخواستہ براہ میں بدعت تھی تو اِس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پورے بلتستان میں بدعتوں پر عمل ہورہا تھا ۔مضمون نگاروں کے اقوالِ زریں کے مطابق براہ سے میر سید جمال الدّین نے بدعتوں کا خاتمہ کیا ہے تو میرا اُن سے عاجزانہ سوال ہے کہ براہ کے علاوہ بلتستان بھر کے دوسرے علاقوں سے ان بدعتوں کو کس نے ختم کیا ہے ؟ کیا بلتستان بھرمیں برپا ہونے والی مجالس میں اب بھی بدعتیں چل رہی ہیں؟ باالفرض اگرمیر سید جمال الدّین نے مجالس کے انتظامی معاملات میں کچھ ردو بدل کیا ہے تو اس کو بدعت کے زمرے میں شمار کرناقرینِ انصاف نہیں ہے ۔ اس نوعیت کی باتوں اور تحریروں سے ہماری قومی و مذہبی وحدت پر کاری ضربیں لگتی ہیں ۔ لہٰذا اس نوعیت کی لاحاصل بحثوں سے اجتناب کرنا موجودہ حساس اور نازک ترین دور کی اولین ضرورت ہے ۔براہ سے بدعتوں کے خاتمے کا مفروضہ ہویا قابلِ احترام بوا رستم علی صاحب سلینگی کا معاملہ ہو یاتحقیقی رپورٹ کو فقہ احوط میں بطور ضمیمہ شامل کرنے کا معاملہ ہو یا اور کوئی متنا زعہ مسئلہ جن کے تذکرہ و تشہیر سے فائدہ کم نقصان زیادہ ہونے کا احتمال ہو تو اس فعل زیاں کو بروقت لگام دینا ہی بہتر ہوگا کیونکہ اس سے آپس کے اختلافات و گروہ بندیوںمیں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جو کسی طور پر بھی مذہب کے مفاد میں نہیں ہے۔لہٰذا “گزشتہ را صلٰوة آئندہ را احتیاط ” کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ ہمیں”دارین “میں اور تاریخ میں دینی و مذہبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ۔
چودھویں صدی کے موجودہ نازک ترین دور میں دین و مذہب کی حفظ و بقا کے لئے غیر جانبدار اہلِ علم و دانش ، فہمیدہ حلقوں اور غیر جانبدار علمائے حق کو میدانِ عمل میں آکر خلوصِ نیت اور دردِ دل سے پراثر و پر نتیجہ کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ انتشار و افتراق کی اس آگ کو جو ہمار ے اندر بھڑکی ہوئی ہے کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے ورنہ ہم سب روزِ محشر اللہ کی عدالت میں جواب دہ ہونگے۔
“الحق مُرّّ ” کے بمصداق راقم کی اس دردمندانہ التجا کو کڑوی گولی یا تنقید برائے تنقید سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بجائے لاحقہ مرض کا علاج سمجھ کر شرف ِ قبولیت بخشے تو اس کا تسلی بخش علاج ممکن ہوسکتا ہے اور موجودہ دور میں مذہب کے اندر پائی جانے والی بے چینی ، نفاق ، گروپ بندی اور اضطرابی کیفیت کا مداوا بھی ہوسکتاہے (انشاء اللہ)
راقم ایک بار پھر غیر جانبداراہلِ علم و دانش ، فہمیدہ حلقے اور غیر جانبدار علمائے حق سے پُر زور اپیل کرتا ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی رہائش پذیر ہیں یا جہاں کہیں بھی قیام پذیر ہیں۔ مذہبِ حقہ میں انتشار و نااتفاقی کی افزائش کرنے والے دیدہ یا نا دیدہ کرداروں کی خوب پہچان کریں۔ پھر اُن پر کڑی نظر رکھیں اور اپنی بابصیرت آنکھوں سے مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ مذہب کے خیر خواہ کون ہیں اور مذہب کے بدخواہ کون ہیں بعد ازاں خیر خواہوں کی حوصلہ افزائی کریں اور بد خواہوں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ وہ عبرت حاصل کرے اور راہِ راست پر آکر مذہب کے ساتھ وفاداری نبھائے اور اپنی اصلاح بھی کرے۔ میں تمام قلم کاروں ،مضمون نگاروں اور لکھاریوں سے یہ بھی اپیل کرتاہوں کہ خدا را اس غریب و ناتواں مذہب پر ترس کھا کر اس کو مزید افتراق و انتشار کی جانب لے جانے کے بجائے یکجہتی و یگانگت کی طرف لے جانے کی دل و جان سے کوشش کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ میرے آبا ء و اجداد نے اور میرے دونوں بڑے بھائیوں (سید مختار حسین الموسوی و سید جمال الدّین الموسوی) نے خونِ جگر دیکر مذہبِ حقّہ کی آبیاری کا حق ادا کیا ہے ۔ یقینا سید جمال الدّین الموسوی مرحو م کے آباء و اجداد علمی صلاحیت ، قوتِ ایمانی ، تقویٰ ، پرہیز گاری اور روحانیت کے لحاظ سے کم از کم ہم چودھویں صدی کے لوگوں سے افضل و بہتر تھے ۔
چہ نسبت خاک را باعَالمِ پاک
تقویٰ اور روحانیت کی راہ پر چلنے والے ان روحانی بزرگوں کو ہم سے زیادہ معلوم تھا کہ کونسی چیز بدعت ہے اور کونسی چیز بدعت نہیں ہے لہٰذا براہ سے بدعتوں کا خاتمہ کے عنوان سے مضامین لکھ کر سورج کو چرا غ دکھانے کی بے ثمر و بے نتیجہ مشق و سعی کرنے کے بجائے اپنی علمی ، ذہنی ، فکری اور ایمانی صلاحیتوں کی گہرائیوں کا عمیق جائز لیں اور اپنے اذھان و قلو ب کو غیروں کی سوچ و فکر سے آزاد رکھ کر سچا اور حقیقی نوربخشی بننے کی کوشش کریں ۔ پنجتن پاک ، آئمّہ معصومین ، چہار دہ معصومین علیھم السّلام ، امیر کبیر سید علی ہمدانی علیہ الرّحمہ ، شاہ سیّد محمد نور بخش علیہ الرّحمہ کی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنا کر راہِ ہدایت پر چلنے کی کوشش کرے تو ان پا ک ہستیوں کے طفیل اللہ تعالیٰ اشیاء کی حقیقتوں کو آشکار کر دے گا بشرطیکہ آپ ان چیزوں کو غیر مذہب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے آئمّہ معصومین علیہم السّلام اور بزرگانِ نور بخشیہ کی تعلیمات کی روشنی میں مذہبِ حقّہ کی عینک سے دیکھا کریں تو سب کچھ آپ پر عیاں ہوجائے گا اور آپ کانُورِ بصارت بھی بڑھ جائے گا۔ اور آ پ کی علمی صلاحیت کو بھی چار چاند لگ جائے گا۔
مذکورہ بالامہربانوں کی خدمت میں نہایت ادب سے صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہمارے اسلاف نے خونِ دل دیکر گلشنِ براہ کی حفاظت کی ہے ضرورت پڑھنے پر مزید خونِ دل کے نذرانے پیش کرنے کے لئے آلِ سیّد محمّد شاہ و آلِ سیّد جمال الدّین ہمہ تن تیار ہیں ۔ لہٰذا اپنے اسلاف کے مشن کو رواں رکھنے کے ضمن میں ہم اپنے عہد کی ایک بار پھر تجدیدِ نوکرتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں:
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رُخِ برگ ِ گلاب ہم نے گُلشن کے تحفّظ کی قسم کھائی ہے۔
جو حضرات پڑھے لکھے تو ہیں لیکن سند یافتہ مُستند علمائے کرام کے رُتبے کے حقدار نہیں ہیں تو ایسے علمی حضرات کو چاہیے کہ وہ دینی ، مذہبی ، شرعی، فقہی مسائل کو چھوڑ کر دیگرموضوعات پر قلم کاری کے جوہر دکھائیں۔ مثال کے طور پر سماجی، معاشی ، معاشرتی اور اصلاحی موضوعات پر لکھ کر اور اِسی طرز کے دوسرے موضوعات پر قلم کاری کر کے اپنی علمی صلاحیتوں کو خوب جانچیں ، پرکھیں تاکہ اپنی تسلی بھی ہو جائے اور عامّة الناس بھی مستفید ہوں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جوبھی شخص تعلیم یافتہ تو ہے لیکن اُس کاتعلق علما ئے کرام کے حلقے سے نہیں ہے تووہ دینی ، مذہبی ، شرعی ، فقہی مسائل پر لب کشائی و قلم کاری سے احتراز کرے کیونکہ مذکورہ ان چار موضوعات پر لکھنا اور بولنا صرف اور صرف سند یافتہ جید علمائے کرا م کا کام ہے یہ ہر کَس و نا کَس کے بس کی بات نہیں ہے اور ناہی یہ اُن کے کرنے کا ہے ۔ یہ میر ی چھوٹی سی گزارش کو بہت بڑی گزارش سمجھ کر شرفِ قبولیت بخشے تو ہم سب کے لئے دین و مذہب پر چلناآسا ن ہوجائے گا اور ہمارے اندر پائی جانے والے بے چینی اور اضطرابی کیفیت کا بھی ازالہ ہو جائے گا ۔ صرف اور صرف اپنے مذہب کا درد دل میں لیے دائیں ، بائیں کی مخالف ہوائوں (بادِ مخالف) سے متاثر ہوئے بغیر نیک نیتی اور خلوصِ دل سے ایک ہی منزل کی جانب مشترکہ قدم بڑھائے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم ایک بار پھر باہم مل کر باہم جڑ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے (انشاء اللہ )
میں اس بات پر فخر محسو س کرتا ہوں کہ میں سید محمد شاہ الموسوی براہ والے کا بیٹا اور سید مختار حسین الموسوی براہ اور سید جمال الدّین الموسوی براہ کا چھوٹا بھائی ہوں مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ میر ے مرحوم والد کی اور میر ے دونوں مرحومین بھائیوں کی بے حد عزت و تکریم کرتے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے کیونکہ میرے والدِ محترم اور دونوں بھائی اپنی دینی خدمات و قربانیوں کی بدولت آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لہٰذا انشاء اللہ تاریخ اُنہیں ہمیشہ یاد رکھے گی اور تاریخ کے قاری بھی اُن پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے رہیں گے۔ یہی اعزاز ہمارے لئے باعثِ صد افتخار ہے اور یہ مذکورہ بالا تلخ و شیریں حقائق ، حادثات ، واقعات و سانحات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔ ان سے سبق سیکھنے میں ہی ہماری عافیت و اصلاح ہے ۔ اللہ ہم سب کو دین و مذہب کی بقا کیلئے متّحد و متّفق ہو نیکی توفیق و استطاعت عطا فرمائے (آمین)
آخر میں اہلیان براہ کے نام اہم پیغام دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ پہلے سیّد محمد شاہ الموسوی کی بابصیرت قیادت میں متّحد رہے پھر سیّد جمال الدّین کی بابصیرت قیادت میں متّحد رہے اور اب حالا ت کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے عزیزم سیّد محمد مختار الموسوی کی قیادت میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ متّحد و منظّم رہیں ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو(آمین)
(وَماَ علینا الاّ البلاغ المبین )