الفقہ الاحوط کا تعارف


تحریر علامہ اعجاز حسین غریبی


امام نوربخشؒ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’ الفقہ الاحوط ‘‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ سلسلۂ تصوف سے وابستہ عظیم صوفی بزرگ کی لکھی گئی ایسی کتاب اور فتاویٰ کامجموعہ ہے جس کی مثال سلسلۂ تصوف کے کسی قرن میں نہیں ملتی۔ راہ سلوک کے پیران طریقت نے اگرچہ سالکان راہ کیلئے تصوف ، صدق و صفا اور دیگر موضوعات پر ہزاروں کتابیں لکھی ہیں لیکن فقہ کے میدان میں موجود تشنگی کو بجھا کر عظیم صوفی بزرگ فقیہ اہلبیت شاہ سید محمد نوربخشؒ نے اپنے پیروکاروں کی بہترین رہنمائی فرمائی اسلامی بلکہ دنیا کے اختلافات کا شافی حل بتاتے ہوئے فقہی ضروریات کو بھی پورا کردیا۔ گویا آپ فقہی میدان میں مجتہد اعظم ہیں تو راہ تصوف میں مرشد اعظم ہیں ۔

نوربخشی مکتب فکر کے پیروکاروں کے لئے یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ سلسلۂ ذہب کے بزرگان دین نے سالکان راہ سلوک کیلئے دینی و دنیوی زندگی کے تمام مسائل کا بہترین حل فراہم کیا ہے۔ چنانچہ شاہ سید محمد نوربخشؒ سمیت دیگر اکابرین صوفیہ امامیہ نوربخشیہ نے راہ تصوف کے سلاسل میں سے اس راستہ کو درست قرار دیا ہے جو تعلیمات محمدؐ و آل محمد ؑ سے منسلک ہو کیونکہ راہ تصوف کے ذریعے سالکین کی اپنے خالق و مالک تک رسائی حضورؐ اور انکے حقیقی جانشینوں کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہے ۔
فقہ احوط کی وجہ تسمیہ
فقہ احوط کو احوط کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہےکہ ۱حوط کے معنی مکمل احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ فقہ احوط کے استنباط کا ماٰخذ قرآن کریم، افعال و اقوال و تقاریر نبوی ؐو ائمہ اہلبیتؑ، حکم عقل اور کشف و شہود سے ماوراء نہیں ۔ مسائل کے استنباط میں احتیاط اور مسائل کی وضاحت میں اعتدال کے پہلو کومدنظر رکھنا بھی فقہ احوط کی وجہ تسمیہ ہے ۔
تالیف کے اسباب

یقیناً ایسی عظیم کتاب لکھنے کی وجہ سطحی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ مؤلف بزرگ نے خود وجوہات بیان کی ہیں :

۱۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی مسئولیت سے عہدہ برآ ہونا۔

۲۔ امت اسلامیہ کیلئے فروعی مسائل کو آسان انداز میں بیان کرنا۔

۳۔ ان وجوہات میں سے ایک رفع اختلاف ہے۔ فقہ احوط اور کتاب الاعتقادیہ لکھنے کا مقصد امت محمدیہؐ کے درمیان موجود اصولی و فروعی اختلافات اور ادیان عالم میں موجود اصولی اختلافات کودور کرنا ہے۔چنانچہ آپ ؒ فرماتے ہیں۔

اَنَّ اللّٰہَ أَمَرَنِیْ أَنْ أَرْفَعَ الْأِخْتِلَافَ مِنْ بَیْنِ ھٰذِہٖ الْأُمَّۃِ أَوَّلًا فِیْ الْفُرُوْعِ وَ اُبَیِّنُ الشَّرِیْعَۃَ الْمُحَمَّدِیَّۃَ کَمَا کَانَتْ فِیْ زَمَانِہٖ مِنْ غَیْرِ زِیَادَۃٍ وَّ نُقْصَانٍ وَّ ثَانِیًا فِی الْأُصُوْلِ مِنْ بَیْنِ الْأُمَمِ وَ کَآفَّۃِ أَھْلِ الْعَالَمِ فَشَرَعْتُ فِیْہٖ بِالتَّسْھِیْلِ وَ ھُوَ حَسْبِیْ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ۔

فقہ الاحوط مقدمۂ مصنف ص ۱

ترجمہ:بیشک اللہ نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں اس امت کے درمیان اختلافات کو دور کروں ۔ سب سے پہلے فروعی اختلافات کو اور کسی زیادتی و کمی کے بغیر اسی شریعت محمدیہ کو واضح کروں جو آپؐ کے زمانے میں تھی ۔ثانیاً مختلف امتوں اور اہل عالم کے اصولی اختلافات کو دور کروں ۔ پس میں نے آسانی سے اس کام کا آغاز کیا اور وہی ذات باری تعالیٰ میرے لئے کافی اور بہترین کا رساز ہے۔

۴۔ فقہ احوط کے عمیق مطالعے سے آپ ؒ کا یہ فرمان بالکل برمحل نظر آتا ہے کہ آپ ؒ نے رفع اختلاف کیلئےراہ اعتدال کو اختیار فرمایااور اختلافی امور میں راہ وسط کی تعلیم دی

راہ نوربخشی است راہ اعتدال دور از افراط و تفریط جہال

۵۔ وجوہات میں سے ایک وجہ دفع بدعات ہے۔ چنانچہ باب النکاح میں آپؒ نے فرمایا !

وَاَنَا مَامُوْرٌ بِرَفْعِ الْبِدَعِ عَنِ الشَّرِیْعَۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَاِحْیَائِ مَا فِیْ زَمَانِہٖ

فقہ الاحوط باب النکاح

میں شریعت محمدیہ ؐ سے بدعتو ں کے خاتمے پر مامورہوںاور اس چیز کے احیاء پرمامور ہوںجوآپؐ کے زمانے میں رائج تھی ۔

فقہ احوط کی چند ممتاز خصوصیات

۱۔ عام فہم، سلیس اور ادبی سادگی:

امام نوربخشؒ ایک مکمل علمی و ادبی شخصیت ہیں وہ اپنے مدعا کے اظہار کیلئے علم و ادب کا مشکل ترین طریقہ استعمال کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں تاہم فقہ احوط میں انہوں نے انتہائی سلیس اور عام فہم زبان استعمال کی ہے تاکہ ہر قاری کو شرعی امور میں آسانی سے جانکاری ملے اور کسی بھی مرحلے پر کوئی دقت پیش نہ آئے۔

۲۔ مآخذ کے یقینی اصولوں کو لینا:

فقہ احوط کے فتاویٰ کا ماٰخذ یہ ہیں:(۱)قرآن پاک، (۲) اقوال ، افعال و تقریر ختم مرتبت ؐ و چہاردہ معصومینؑ، (۳)اجماع امت ، (۴) حکم عقل، (۵) کشف و شہود تاہم آخر الذکر ماخذ عمومی نہیں اس کا تعلق امام ‘ نائب امام یا دیگر اولیاء اللہ کیساتھ خاص ہیں۔

۳۔ اتحاد اسلامیہ کی دعوت:

امام نوربخشؒ نے فقہ احوط میں عالم اسلام کو نکات افتراق کو بالائے طاق رکھ کر نکات اتحاد پر ایک دوسرے کے ساتھ دینے کی تلقین کی ہے اور باب امر بالمعروف و النہی عن المنکر میں فرمایا !

وَ اَنْ لَّا یَجْتَرِیَ فِیْمَا لَایَجْتَمِعُ عَلَیْہِ الْاُمَّۃُ الْاِسْلَامِیَۃُ وَفِیْمَا لَایَعْرِفُ حَقِیْقَتَہُ بِالْیَقِیْنِ بَلْ یَرْجِعُ فِیْ تَحْقِیْقِہِ اِلٰی عَالِمٍ رَبَّانِیٍّ عَامِلٍ صَمَدَانِیٍّ مُتَخَلِّقٍ بِاالْاَخْلَاقِ الْحَمِیْدَۃِ مُتَبَرِّیٍٔ عَنِ الْاَخْلَاقِ الذَّمِیْمَۃِ لَاجَاہِلٍ نَفْسَانِیٍّ عَاطِلٍ غَضْبَانِیٍّ مُتَقَیِّدٍ بِتَقْلِیْدِالْقِشْرِیَۃِ مُتَعَصِّبٍ بِتَقْلِیْدِ الرَّسْمِیَۃِ

فقہ الاحوط باب امر بالمعروف و النہی عن المنکر ص ۱۲۰

’’احتساب کرنے والاان امور میں زیادہ دلیری نہ دکھائے جن میں اُمت اسلامیہ کا اتفاق نہ ہو اور ان امور میں بھی جن کی اصلیت کے بارے میں علم یقینی نہ ہو ۔بلکہ ایسے امور کی تحقیق کے لئے ایسے عالم ربانی کی طرف رجو ع کرے جو عمل گز ار ہو ،اپنے عمل میں بے غرض اور مخلص ہو ،نیک اخلاق کا مالک ہو ، بُرے اخلاق سے دور ہو ، خواہشات کا شکا ر جاہل نہ ہو ، بلا وجہ غصہ والانہ ہو۔ کسی ظاہری بندش میں بند ہونے والانہ ہو( بلکہ صاحب کشف وکرامات والاہو) ‘ ظاہری تقلید کی بناء پر تعصب کرنے والانہ ہو ‘‘ ۔

۴۔ فقہاء کا احترام اور تنقید سے احتراز:

امام نوربخشؒ عالم اسلام کے تمام فقہاء کے احترام کو بھی اپنی فقہی روش کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام علمی، عملی مہارت اور کاوشوں کے باوجود اہل علم کی علمیت و شخصیت کا لحاظ رکھا ہے اور فقہ احوط سمیت کسی بھی کتاب یا دوسری تحریر میں کسی فقیہ کی شان میں اختلاف کی بنیاد پر توہین و تحقیر آمیز الفاظ یا تنقیدی رویے کا اظہار نہیںکیا۔

۵۔ احتیاط کا بہترین پہلو اختیار کرنا:

امام نوربخشؒ شرعی احکام کے اجراء کے سلسلے میں ماٰخذ شریعت سے قطعی حکم نہ ملنے کی صورت میں دلائل فقہ کا بہترین راستہ احتیاط سے متمسک نظر آتے ہیں۔

۶۔ اہل بدعت پر بالواسطہ تنقید:

اختلافات سے متعلق امام نوربخشؒ کا نظریہ یہی ہے کہ کسی بھی حکم میں اختلاف فقہاء کے اختلاف کا نتیجہ ہے تاہم جن معاملات میں اہل بدعت کا کوئی کردار موجود ہو وہاں پر بھی بالواسطہ تنقید کرکے مذمت اور حوصلہ شکنی کی جائے۔

۷۔ سائنسی علوم کی جھلک:

امام نوربخشؒ کو علم فلکیات سمیت سائنسی علوم پر بھی مہارت حاصل تھی انہوں نے فقہ احوط، کتاب الاعتقادیہ سمیت کئی تصانیف میں علوم فلکیات و سائنس کے دیگر معاملات پرگفتگو کی ہے ۔

۸۔ معاشی مہارت کا اظہار:

امام نوربخشؒ نے معاشی مسائل(تجارت، شراکت) کے علاوہ فرائض، وراثتوں کی تقسیم جیسے معاملات میں اپنی بہترین علمی و معاشی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔

۹۔ تعلیمات اہل بیت ؑکا مجموعہ:

تصوف سالکین راہ طریقت کیلئے تزکیہ نفس کے ذریعے حق و حقیقت تک رسائی کا راستہ ہے۔امام نوربخشؒ اس تصوف کو درست مانتے ہیں جو چہاردہ معصومین ؊کی سیرت طیبہ سے ماخوذ ہو۔ فقہ احوط میںموجود احکامات بھی قرآن و سنت نبویؐ، فرامین ائمہؑ کے علاوہ دیگر منابع شریعت سے ماخوذ ہیں۔ آپؒ کی تعلیم یہ ہے کہ رسول اللہؐ کے بعد ہدایت کے روشن ستارے اول علیؑ اور آخر محمد مہدیؑ ہیں۔ کتاب الاعتقادیہ ،باب الولایت

فقہ احوط کے اولین اردو مترجم علامہ محمد بشیر (مرحوم) رقمطراز ہیں کہ جناب سید العارفین سید محمد نوربخشؒ کی جملہ تعلیمات اور نظریات چہاردہ معصومینؑ کی تعلیمات کا آئینہ دار ہیں۔
فقہ احوط اردو ترجمہ علامہ بشیر طبع اول ، دیباچہ صفحہ ۷

امام نوربخشؒ اسلامی فرقوں میں تنائو اور کشیدگی سے نالاں ہیں کیونکہ یہ کشیدگی آپس کی تکفیری و ارتدادی فتاویٰ کی وجہ سے ہے۔ اور ان فتاویٰ کی وجہ سے اختلاف حد پار کرکے افتراق کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں جس کا نتیجہ فرقہ وارانہ تعصب، غیر اعلانیہ جنگ کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ امام نوربخشؒ نے باب صلوٰۃ میں اس رویئے سے یوں برأت کا اظہار کیا ہے۔

وَ الَّذِیْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلَا ئِکَتِہِ وَ کُتُبِہِ وَ رُسُلِہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ قَالَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ اِنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَ صَامَ شَھْرَ رَمْضَانَ وَ حَجَّ الْبَیْتَ اِنْ کَانَ مُسْتَطِیْعًا فَلَا یَجُوْزُ لِمُسْلِمٍ اَنْ یُّکَفِّرَہُ بِسَبَبِ شَیْیٍٔ یَّعْتَقِدُہُ وَ لَا یَعْلَمُ حَقِیْقَۃَ الْاَمْرِ وَ یَزْعُمُ اَنَّ مَنْ لَّا یَعْتَقِدُہُ فَھُوَکَافِرٌھٰذِہِ عَقِیْدَۃُ الْجُھَّالِ۔

فقہ الاحوط باب صلوٰۃ صفحہ ۹۴

ترجمہ : ’’جو شخص اللہ ،اسکے فرشتوں ،اسکی کتابوں ،اسکے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اور کہے کہ میں گواہی دیتاہو ں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںاورگواہی دیتاہوں کہ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ علیؑ اللہ کے ولی ہیں ، وہ نماز پڑھتاہو ، زکوٰ ۃ دیتا ہوبشرطیکہ صاحب مال ہو ، ماہ رمضان کے روزے رکھتاہو اور استطاعت پر بیت اللہ کاحج کرتاہو تو کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ اس کو ایسی چیز کی وجہ سے کفر کی طرف نسبت دے جس پر وہ عقیدہ رکھتاہو اور وہ حقیقت امر سے بے خبر ہو اور وہ یہ گمان کرتا ہو کہ جس نے بھی یہ عقیدہ نہ رکھا وہ کافر ہے ، یہ جاہلوں کا عقیدہ ہے۔‘‘

دوسری جگہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمایا !

وَلَوْ وَقَفَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ اِنْصَرَفَ اِلٰی مَنْ صَلّٰی مُتَوَجِّھًا اِلَی الْقِبْلَۃِ۔

فقہ الاحوط ، باب وقوف والصدقات، صفحہ ۳۳۹

ترجمہ: اگرکوئی مسلمانوںکیلئے وقف کرے تووقف کی چیز ان لوگوںکی طرف پھیر دے جو قبلہ رخ ہو کرنماز پڑ ھتے ہیں۔

۱۱۔ شریعت ،طریقت اور حقیقت لازم و ملزوم قرار دینا:

امام نوربخشؒ کا نظریہ ہے کہ شریعت پر مکمل عمل پیرا ہوئے بغیر طریقت اور حقیقت میں اعلیٰ مدارج کا حصول ناممکن ہے۔ آپؒ کا فرمانا ہے کہ طریقت و حقیقت کے مراحل میں کسی کو بھی شرعی حدود پھلانگنے کی اجازت نہیں ۔

۱۲۔ راہ اعتدال کی تبلیغ:

امام نوربخشؒ نے موضوع کی اہمیت کے لحاظ سے فتاویٰ دئیے ہیں۔ اور فتویٰ دیتے وقت افراط و تفریط سے حتی الامکان گریز کیا ہے اور حد اعلیٰ اور حد امکان ہر دو حالت کو بیان کیا ہے۔

۱۳۔ حاکم وقت سے متعلق واضح تصور:

امام نوربخشؒ فرماتے ہیں کہ وقت کا حاکم صرف وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو زمانے کے صالح اور حکمت والے ہوں نہ کہ فاسق و فاجر۔ ان کی یہ بات عصر حاضر کے لوگوں کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ آتی ہے کیونکہ حکمرانوں کے صالح اور حکیم نہ ہونے کی وجہ سے پورا معاشرہ بدامنی ، بدنظمی اور بربادی کا شکار ہے۔

۱۴۔ حبل اللہ کی جانب ترغیب:

امام نوربخشؒ فرماتے ہیں کہ اختلافات کا خاتمہ ’’حبل اللہ‘‘ سے متمسک ہو کر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی رسی سے مراد قرآن و تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام اور ائمہ اضافی کی تابعداری ہے اور یقیناً یہ ایسے وسیلے ہیں جو رضائے الٰہی، محبت رسول ؐ اور عشق آل محمدؑ راہ متعین کرتے ہیں۔

علامہ بشیر (مرحوم ) لکھتے ہیں کہ ہم نوربخشی تو صحیح معنوں میں حقیقی صوفیوں کے طریقے پر چلنے والے ہیں۔ ہمارا سلسلہ کسی قسم کے انقطاع کے بغیر چہاردہ معصومین علیہم السلام سے متصل ہے۔ فقہ الاحوط اردو، طبع اول مقدمہ، صفحہ ۷

۱۵۔ کشف و شہود:

امام نوربخشؒ دیگر فقہاء کے برعکس کشف و شہود سے استنباط کو روا سمجھتے ہیں۔ فقہ احوط میں کئی مقامات پر امام اور نائب کو مصلحت پر مبنی فیصلوں کا اختیار رکھا گیا ہے ۔ ایسے مقام پر امام یا نائب امام دیگر منابع فقہ کے صریح حکم کی عدم دستیابی پر اپنے مقام کشف وشہود سے فیصلہ کرنے میں مدد لے۔

۱۶۔ عرفان وتصوف کا آئینہ دار:
امام نوربخشؒ عرفان و تصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المؤمنین میں آپؒ کو غوث المتأخرین کا لقب دیا ہے۔ چنانچہ امام نوربخشؒ پہلے تصوف کے پیشوا ہیں جنہوں نے فقہ کے موضوع پر جامع کتاب لکھی ۔ علامہ بشیر (مرحوم) لکھتے ہیں کہ ہم نوربخشیوں کے نزدیک جناب شاہ سید محمد نوربخش موسوی علیہ الرحمہ کا وہی مقام ہےجو اہل سنت کے ہاں امام ابو حنیفہ و غیرہ کا اور اہل تشیع کے ہاں اپنے ہر زمانے کے مجتہد حی کا ہے۔ فقہ الاحوط اردو، طبع اول مقدمہ، صفحہ ۹

۱۷۔ حقیقی تصوف کی تصویر کشی:

امام نوربخشؒ نے فقہ احوط میں اس تصوف حقیقی کی تصویر کشی کی ہے جس پر ائمہ معصومین علیہم السلام نے عمل کیا۔ آپ ؒ نے ایسے صوفیانہ طریقوں کو یکسر مسترد کیا ہے جو تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام سے متصادم اور خودساختہ ہوں۔ ہم نوربخشیوں کا تعلق ان رنگین گروہوں سے نہیں جو صوفیائے کرام کالبادہ اوڑھ کراسلامی تعلیمات کو مسخ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا سلسلہ کسی انقطاع کے بغیر چہاردہ معصومین علیہم السلام سے متصل ہے۔ ہمیں روحانیت چہاردہ معصومین علیہم السلام سے ورثے میں ملی ہے۔ فقہ الاحوط اردو، طبع اول مقدمہ، صفحہ ۷

فقہ احوط کے نسخے:

اہل علم و اہل قدر کے ہاں فقہ احوط کی کتنی اہمیت اور کتنی قدر تھی اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ فقہ احوط کے سینکڑوں قلمی نسخے کئی شخصیات کے پاس اور متعدد لائبریریوں کی زینت ہیں۔ غربت کے اُس دور میں اہل علم کا اس کتاب کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے قلمی شکل میں محفوظ کرنا فقہ کی علمی سربلندی کو ثابت کرتا ہے۔

جناب سید علی کاظمی مرچھاچھوربٹ کے مطابق ان کے پاس چھبیس قلمی نسخے موجود ہیں۔جن میں سے کچھ فوٹو کاپیاں ہیں اور اکثر اصلی نسخے ہیں۔ حقیر کے پاس بھی تقریباً ان تمام نسخوں کی اوریجنل سافٹ کاپی موجود ہے۔یہ کاپیاں جناب سید صاحب نے جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کراچی کو عطا کی تھیں۔

محققین کے مطابق فقہ احوط کے خالص عربی متن پر مشتمل چودہ ، بین السطور ترجمہ والے سولہ ،منظوم ترجمہ کے دو نسخے اور آٹھ شرحیں موجود ہیں جبکہ فارسی ترجمہ و شرح کیساتھ دو دفعہ اور اردو ترجمہ کے ساتھ متعدد بار شائع ہو چکا ہے۔ کئی نسخے ایران اور دیگر ممالک کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں جن کے حصول کی کوششیں جاری ہیں۔

اگر ان تمام نسخوں کو ایک جگہ جمع کردیا جائے تو نسل نو کیلئے فقہ احوط پر تحقیق کیلئے مواد کا ایک بہت بڑا ذخیرہ میسر آسکتا ہے ساتھ ہی فقہ پر موجب نزاع بننے والے انفرادی تجزیوں کے بجائے اجتماعی اور متفق علیہ نظریہ قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے نوربخشی مسلک کی تعلیمات کو عام کرنےمیں کوشاں علماء اور انجمنوں کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ فقہ احوط کے نسخوں کو الماریوں، چھتوں، صندوقوں اور چھجوں سے نکال کرنئی نسل کے دسترس میں لانے، مسلک کے باشعوراور پڑھے لکھے طبقے کو بھی دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملنا چاہئے۔

اذان کے حوالے سے وہم کا ازالہ:

اذان و اقامت کے کلمات کے حوالے سے فقہ احوط کے قلمی نسخوں میں سے بہت سے ایسے نسخے ہیں جس میں یہ کلمات مقدسہ موجود ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
۱. قلمی نسخہ میر سید عبداللہ ۱۱۶۸ھ مملوکہ پیر طریقت سید محمد شاہ نورانی.
۲. قلمی نسخہ ۱۱۵۶ھ بمطابق ۱۷۴۳ء مملوکہ سید محمد شاہ تھلوی.
۳. قلمی نسخہ سید عبد اللہ مملوکہ پروفیسر سید حسن شاہ شگری.
۴. قلمی نسخہ سیدجلال الدین مملوکہ سید علی کاظمی چھوربٹ.
۵. قلمی نسخہ مملوکہ سید علی شاہ گلشن کبیر.
۶. فقہ احوط سراج الاسلام ناشر سید قاسم شاہ چھوربٹ.
۷. قلمی نسخہ میر سلطان علی ۱۲۱۰ھ مملوکہ سید محمد علی کورو.
۸. قلمی نسخہ مملوکہ سید حبیب اللہ سلینگ.
۹. فقہ احوط اردو ترجمہ علامہ محمد بشیر طبع دوم ص ۳۰

ایک قلمی نسخہ جو میر علی رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ میرواعظ سرمیک سے منسوب ہے جو شگر میں موجود ہے ، اس میں غیر نوربخشی اذان کی ہیئت موجود ہے ۔ اس نسخہ کے بارے میں مندرجۂ ذیل حقائق کی بنیاد پر واضح ہوتا ہے کہ وہ نسخہ میر علی رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نہیں بلکہ کسی اور نے ان کے نام منسوب کیا ہے۔

۱۔ حقیر نے نسخہ میر علی رضا ؒ کو منسوب اس لئے کہا کیونکہ میر علی رضاؒ کے خاندان کے چشم و چراغ جناب سید محمد صاحب بقید حیات ہیں جو اسی خانقاہ معلیٰ کے میر واعظ بھی ہیں۔ ان سے جب مذکورہ نسخہ کے بارے میں حقیر نے پوچھا تو سید صاحب نے فرمایا کہ میر علی رضا ؒ کے نام سے ایسا نہ کوئی نسخہ میں نے دیکھا ہے اور نہ ہی مجھے اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملا ہے ۔ اگر میر علی رضارحمۃ اللّٰہ علیہ کا ایسا کوئی نسخہ ہوتا تو یقیناً ان کے علمی وارثین کو اس کا علم ہوتا ۔

۲۔ جناب سید محمد صاحب کے مطابق جس شخص کے پاس یہ نسخہ موجود ہے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کیسے پہنچا تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

۳۔ یہ نسخہ ’’ نسخہ بلغار ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ نسخہ بلغار کے گاؤں ’’ یونپوا ‘‘ سے ملا ہے۔ یونپوا گائوں مولوی خلیل بلغاری کا گاؤں ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نسخے لکھ کر کسی نوربخشی بزرگ کے نام منسوب کردیتے تھے ۔ اس کی زندہ مثال مشجر الاولیاء منسوب بہ شاہ سید محمد نوربخشؒ ہے۔

۴۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ میر علی رضارحمۃ اللّٰہ علیہ کایہ نسخہ سرمیک سے بلغار اور وہاں سے شگر کیسے پہنچا۔

۵۔ میر علی رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ میر مختار اخیار رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فرزند ہیں۔ میر مختار ؒ نے جتنے نسخے اپنے شاگردوں اور فرزندان سے لکھوائے سب میں نوربخشی اذان موجود ہے۔یہ نسخہ واحد نسخہ ہے جس میں نوربخشی اذان کے برعکس ہیئت موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ میر علی رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ ایسی اذان کو اپنے فقہ کا حصہ بنالیں جبکہ ان کے والد گرامی کے لکھے گئے تمام نسخوں میں نوربخشیوں کے ہاں رائج اذان موجود ہے ۔

۶۔ میر علی رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بحیثیت میر واعظ سرمیک میں سکونت اختیار کی تھی۔ تاریخ سرمیک گواہ ہے کہ میرعلی رضا رحمۃاللہ علیہ نے سرمیک میں کوئی غیرنوربخشی اذان رائج نہیں کی۔ ابتدا ءسے ہی یہاں نوربخشی اذان رائج ہے ۔ ایسا کیسےہو سکتا ہے کہ میرعلی رضا خانقاہ معلیٰ میں نوربخشی اذان رائج کرے اور کتاب میں غیر نوربخشی اذان لکھے۔

۷۔ تمام نوربخشی خانقاہوں، جامع مساجد اور مسجدوں سے بالاتفاق ایک ہی اذان دی جاتی ہے جس کا تذکرہ دعوات اور فقہ کے مختلف نسخوں میں موجود ہے۔ لیکن اس نسخے میں موجود اذان کی ہیئت صدیوں سے رائج اذان سے یکسر مختلف ہے جو کسی بھی صورت درست نہیں ہو سکتی۔

۸۔ ہمارے علمائے کرام کے ہاں دستیاب نسخوں میں وہی اذان موجود ہے جو نوربخشیوں کے ہاں رائج ہے۔ ماسوائے اس نسخہ کے ، چنانچہ اس نسخے کے منسوب ہونے یا قلم زنی کےامکان سے یکسر انکار نہیں کیا جاسکتا۔

۹۔ کسی کتاب پر مولف کا نام یا تاریخ تحریر ابتدائی صفحات میں یا آخر میں لکھی ہوتی ہے لیکن حیرت انگیز طور اس نسخہ میں غیر نوربخشی اذان والے صفحے پر لکھا ہے کہ یہ نسخہ میر علی رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تحریر کیاہے جو ایک طفل مکتب کو بھی سمجھنےکیلئے کافی ہے۔ ڈاکٹر انجینئر نذیر حسین کے مطابق یہ نسخہ محرف ہے ساتھ ہی میر علی رضاؒسے منسوب کیا گیا ہے۔دیکھئے سراج الاسلام عمومی تبصرہ ص ۳۲۔

۱۰۔ قلمی نسخوں میں مستند ترین نسخہ میر عبد اللہ ؒ فرزند میر مختار اخیارؒ کا نسخہ ہے جو سراج الاسلام کے نام سے کئی بار شائع ہو چکا ہے۔ اصل کتاب پیر طریقت حضرت الحاج سید محمد شاہ نورانی مدظلہ العالی کے ہاں محفوظ ہے۔ میر عبد اللہ کے تمام قلمی اور عکسی نسخوں میں نوربخشی اذان کی موجودہ ہیئت موجود ہے۔

۱۱۔ علامہ بشیر مرحوم نے اپنے تمام مطبوعہ نسخوں میں نوربخشیوں کے ہاتھ مورجہ اذان کو درست قرار دیا ہے اور اسے متن کا حصہ تسلیم کیا ہے۔ اپنے مترجمہ فقہ کے طبع دوم کے افتتاحیہ میں وہ رقمطراز ہیں کہ ’’۱۱۵۶ھ میں لکھے گئے ایک قدیم قلمی نسخے میں مندرج کلمات اذان کی تفصیل کو اس دوسرے ایڈیشن میں بھی درج کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں چند دیگر قلمی نسخوں میںکلمات اذان کی مذکورہ تفصیل موجود ہے‘‘۔ دیکھئے ص’’ ب ‘‘ طبع دوم۔

۱۲۔ فقہ احوط پر خصوصی تحقیق میں مصروف جناب سید علی کاظمی ابن سید جلال الدین میر واعظ مرچھا چھوربٹ اس نسخہ کے بارے میں فرما تے ہیں کہ انہوں نے اس نسخے کی شگر گلاب پور سے اسکین کاپی حاصل کی ہے اور دوران تصویر کشی اس کے صفحات پر واٹر مارک کے ذریعے Made in Pakistan لکھا ہوا تھا۔ روشنی کے سامنے صفحات کو رکھ کر دیکھا جائے تو یہ الفاظ واضح نظر آتے ہیں ۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ نسخہ قیام پاکستان کے بعد تیار کیا گیا ہے۔

۱۳۔ نوربخشی اذان کے کلمات کے حوالے سے یہ سوال نہیں اٹھایا جاسکتا کہ یہ کلمات درست ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ مقدس کلمات دعوات صوفیہ امامیہ کے تمام قلمی و عکسی نسخوں سمیت فلاح المومنین، رسالہ امامیہ، مصابیح اسلام اور دیگر مستند کتابوں میں موجود ہیں۔ البتہ صرف یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فقہ احوط کے بعض نسخوں میں یہ کلمات موجود ہیں اور بعض میں نہیں۔
(جاری ہے)