امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی پر ایک اجمالی نظر


تحریر


موضوع: امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی پر ایک اجمالی نظر
تحریر :زرینہ زہراآخونزادہ خپلوی
ملخص [Abstract]
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور حجت خدا ہیں ۔ آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کی تربیت نبوت و امامت کے زیر سایہ ہوئی اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو اپنا بیٹا اور فرزند کہا ہے ۔ زیر نظر مقالے میں آپ کی حالات زندگی ، آپ کا دور امامت ، حاکم شام سے ہونے والی صلح اور آپ کی شہادت سمیت زندگی کے اہم پہلووں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
بنیادی کلمات[ Keywords]
امام حسن ، مجتبیٰ، صلح ، معاویہ ، حالات زندگی
مقدمہ
تمام حمد ثناء اس خداوند متعال کے لئے جس نے انسان کو چراغ علم کی لوُ میں پروان چڑھانے کا قرینہ سکھایا،اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاء و مرسلین بھیجے۔ کبھی آدمؑ کبھی نوح ؑ کبھی ابراہیمؑ کبھی موسی ؑو عیسیٰؑ اورسب سے بڑھ کر فخر موجودات وجہ تخلیق کائنات منبع وجود تا جدارِ ھل اتیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیج کر ایک بہتری رہبر و رہنما کا بندوبست کیانیز ان کے بعد خدا نے عقل سلیم کے ساتھ انسان کی ہدایت کے لیے کچھ انوار کو منتخب کیا وہ انوار آئمہ کی شکل میں دنیا میں آئے اور انسان کی ہدایت کی ذمہ داری کوبخوبی انجام دیا۔اسی امامت کی دوسری درخشاں ستارے کا نام امام حسن مجتبیٰؑ ہے ۔ امام حسن ؑ اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں امام ؑ کی صلح تاریخی اہمیت کا حامل ہے کچھ لوگ امام حسن کی صلح کو ان کی بزدلی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں :اگر امام حق پر تھے تو انہوں نے قیام کیوں نہیں کیا؟ در حقیقت یہ لوگ امام کے صلح کے اسباب سے ناواقف و بے خبرہیں اگر ہم امام علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلووں کا مطالعہ کریں اور آپ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا بہتر انداز میں تجزیہ کریں تو ان تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔
امام حسن علیہ السلام کا اجمالی تعارف
آپ مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی‌ طالب ؑاور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؑکے سب سے بڑے فرزنداور پیغمبر اکرم ﷺ کے بڑے نواسے ہیں۔ 
نام
“حَسَن” عربی زبان میں نیک اور اچھائی کے معنی میں آتا ہے ۔ روایات کے مطابق یہ نام پیغمبر اکرمؐ خدا کے حکم سے نے آپ کیلئے انتخاب کیا ۔ اس کے معنیٰ ہیں حسن و جمال والا ۔آپ حسن وجمال میں یکتا تھے۔
عربی زبان میں آپ کا اسم گرٰمی حسنؑ تھا اور تورات میں شبر ہے کیونکہ عبرانی زبان میں شبر کا معنیٰ حسن ہی ہے۔”حسن” اور “حسین” عبرانی زبان کے لفظ “شَبَّر” اور “شَبیر”(یا شَبّیر)کے ہم معنی ہیں اسلام حتی عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔
 کنیت
 “ابومحمد” اور “ابوالقاسم” ہیں آپ ؑ کی یہ کنیت “ابو محمد ” آپ ﷺ نے عطا فرمایا ہے۔اس کنیت کے بارے میں کہا کرتے تھے :میری یہ کنیت زمانہ جاہلیت سے اب تک کسی کی نہ ہوئی۔
آپ ؑکے القاب: سید، طیب ،امین ،تقی، زکی، صفوتہ الؐلہ ، مجتبیٰ، شبیہ رسولؐ اور سَیّد (سردار) ہیں ، آپ ؑ کا یہ لقب نبی اکرم ﷺ نے تجویز فرمایا۔
مجتبیٰ ؛ مجتبیٰ کے معنیٰ رفعت کے ہیں آپ ؑ اعلیٰ کردار کی وجہ سے بلند مراتب پر تھے اسی وجہ سے “مجتبیٰ” کے لقب سے مشہور ہوئے۔
زکیّ (پاکیزہ) یہ آپ ؑ کے اپنی عصمت و طہارت کی وجہ سے “زکی ” لقب سے مشہور ہیں۔
آپ کے بعض القاب امام حسینؑ کے ساتھ مشترک ہیں جن میں “سیّدا شباب اہل الجنۃ”، “ریحانۃ نبیّ اللہ” اور “سبط” ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں یوں آیا ہے: “حسن” اسباط میں سے ایک ہے۔آیات و روایات کی رو شنی میں”سبط” اس امام اور نَقیب کو کہا جاتا ہے جو انبیا کی نسل اور خدا کی طرف سے منتخب ہو۔
ولاد ت باسعادت
نوا سہ رسول ،جگرگوشہ بتول حضرت امام حسن مجتبی ؑ کی ولادت با سعادت ہجرت کے تیسرے سال 15، رمضان مبارک ،منگل کی رات مدینہ منورہ میں ہوئی ۔امام حسن ؑ اپنے چاہنے والوں کے دوسرے امام ، چوتھے معصوم اور اصحاب کساء میں سے ہیں۔
آپؑ امام علیؑ اور حضرت فاطمہ (س) کے فرزند اور پیغمبر ؐ کے بڑے نواسے ہیں زندگی کے سات سال رسول اکرمؐ کے زیر سایہ رہے اور رحلت پیغمبر ﷺ کےبعد تیس سال تک اپنے والد محترم امیرالمومنین ؑ کے دست وبازو بن کر اسلام کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہے ۔امیرالمومیننؑ حضرت علی ؑ کی شہادت 40 ہجری کے بعد اُمت کی امامت کی عظیم ذمہ داری سنبھالیااورآپ ؑ 37 سال کی عمر میں امامت اور خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور سنہ 41 ہجری کو معاویہ کے ساتھ صلح کی ۔ آپ کی حکومت کا دور چھ مہینے اور دس دن تھا ۔ صلح کے بعد مدینہ میں چلے گئے اور 10سال تک امامت الہیہ کی ذمہ داری نبھاتے رہے یہاں تک کہ معاویہ کی جانب سے جانے والی سازش کے نتیجہ میں مسموم ہوئے اور 48 سال کی عمر میں جام شہادت نوش فرمایا اور مدینہ کے معروف قرستان جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
بچپن
رسول اللہ ﷺنے اپنے قول وفعل سے امام حسن ؑ کے فضائل بیان کئے ہیں۔نواسہ مسجد میں آجائے تو منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔سجدے میں آجائے تو سر نہ اٹھاتے تھے۔عید کا دن تھا تو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباھلے کادن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔تطہیر کی منزل آئی تو گلے سے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا ؑ کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسن ؑ کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔ اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔
امیر امومنین ؑ علی ؑ ابن ابی طالب ؑ کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ ؑ امام حسن ؑ سے ہی جواب دلواتے تھے۔ساری کتابوں میں ہے کہ امام حسن ؑ گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔امام حسن ؑ کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی ؐکا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی ؑ کا انداز،شجاعت میں ہاشم ؑ کا جلال،استقلال میں ابو طالب ؑ کے تیور ، ایمان و یقین میں عبدالمطلب ؑ کا نقشہ، خاندان کی عزت ، بزرگوں کی یادگار،مذہب کا ذمہ دارا، اسلام کا خطیب،صلح کا نقیب،قرآن کامفسر،اُمت کا مصلح،کعبہ کا محافظ اور سیرت رسول کا ایسا وارث کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچالیا۔ قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم ؑکے ارشادات امام حسن ؑکی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباہلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہےاور اعتراض سےبالاترہے۔مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن ؑ کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہوگیا۔
سخاوت
امام حسن ؑ کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔ امام نے فرمایا: تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔بھئی وہ میرے با با علی ؑ مرتضےٰ ہیں ۔ہم اہلبیتؑ کریم ابن کریم ہیں جو دنیا کو کھلاتے ہیں۔
جناب جابربن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے پس آپﷺ نے فرمایا: تحقیق میرے یہ دونوں بیٹے جن کی بچپن سے میں پرورش کررہا ہوں میں دعا گو ہوں کہ جب یہ جوان ہوں گے تو میں نے ان کے لیے خدا سے تین چیزون کا سوال کیا ہے۔پس خدا نے مجھے دو عطا فرمائی ہیں اور ایک سے مجھےروک دیا ہے۔میں نے خدا سے سوال کیا کہ وہ ان دونوں کو طاہر و مطہر قرار دے اور زکی و پاکیزہ قرار دے پس خدا نے میری یہ دعا قبول کی ۔پھر میں نے سوال کیا: ان دونوں کو ان دونوں کی ذریت کو اور دونوں کے چاہنے والوں کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرما۔خدا نے میری اس دعا کو قبول کرلیا۔ پھر میں نے خدا سے دعا کی:میری ساری امت کو ان دونوں کی محبت پر جمع فرمادے آواز قدرت آئی : اے محمد ؛ میری قضا قدر حاوی ہوچکی ہے کہ آپ ﷺ کی امت کا ایک گروہ وہ سلوک کرے گا جو یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں نے کیا تھے اور تیرے اس بیٹے کے ساتھ بھی وہی انجام کرےدیں گااور میں نے اپنے لے واجب قراردیا ے کہ جو بھی اس طرح کرے گا اس کو اپنی کرامت کا محل نہیں دوں گا اور اس کو اپنی جنت میں بھی سکونت نہیں دوگا اور اس کی طرف قیا مت کے دن اپنی رحمت کی نظر بھی نہیں کروں گا۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐسے پوچھا گیا کہ اپنے اہل بیت سے آپ کو سب سے پیا را کون ہے؟ فرمایا ، حسنؑ اور حسینؑ۔ آپؐ حضرت فاطمہ ؑسے فرمایا کرتے تھے، میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پھرآپ ؐدونوں کو سونگھا کرتے اور انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے ۔ قا ل رسول ﷺ یا علی ان الحسن و الحسین بین الادی کا لبدر بین النجوم:رسول اللہ نے فرمایا یا علیؑ بے شک حسن اور حسین میری ساری اولاد میں ایسے ہیں جیسےستاروں میں چاندعن علیؑ قال قال رسول اللہ الحسن وا لحسین یوم القیامتہ عن جیبی عرش الرحمن بمنزلتہ الشنفین من الوجہ
علیؑ سے مروی ہے کہ جنا ب رسو ل خدا ؐ نے فرمایا ہے کہ حسنؑ اور حسینؑ قیامت کے دن عرش خدا کےدونوں طرف اسی طرح موجودہونگے جیسے منہ کے دونوں طرف دو گوشوارے ہوتے ہیں ۔
سرورکائناتﷺ نے ارشاد فرمایا ہے” ۔ الحسن والحسین سیداشباب اھل الجنتہ وابوھماخیرمنھما؛حسن اورحسین (علیہم السلام) جنت کے جوانان کےسردار ہیں اور ان کے والد بزرگوار یعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔و عن ابی ریاح مولیٰ ام سلمۃ قال قال رسول اللہ لو علم اللہ تعالیٰ فی الارض عبادا اکرم من علی علیہا السلام و فاطمۃ والحسن والحسین علیہ السلام لا مرنی فی ان اباھل بھم ولکن امرنی بالمباھلۃمع ھولاء وھم افضل الخلق فغلبت بھم النصاریٰ
ابو ریا ح خادم حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا کہ خداۓ زوالجال اگر روۓ زمین پر علیؑ اور حسنؑ اور حسینؑ سے قابل عزت بندے دیکھتا تو تاکید کے ساتھ مجھے حکم دیتا کہ ان کو لے کر مباہلہ کروں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ ان کو لے مباہلہ کریں جو افضل المخلوق ہیں ، پس میں ان کی بدولت نصاریٰ پر غالب آیا۔ دوسری مودت حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسن اور حسینؓ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے ،جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا،کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے نانا نانی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماں باپ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسینؓ ہیں۔
وعن فاطمۃ قالت مع الحسن والحسین الیٰ النبی فی السکرت التی مات فیھا فقلت ورثھماشیاء فقال اما الحسن فلہ ھیبتی وسوددی واماالحسین فلہ جراتی وجودی،
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ کو ساتھ لے کررسول کریم ؐکے ےپاس حاضر ہوئی اس شدت مرض کے وقت جس میں آپؐ رحلت فرماگۓ پس میں نے عرض کی” یا رسول اللہ ؐ! آپ کوئی چیز ان کو عنایت فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسنؑ کے واسطے میری ہیبت اور سرداری کا ہے اور حسینؑ کے واسطے میری جرات اور سخاوت ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں : امام حسن ؑزبردست عابد، بے مثل زاہداور افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج پیدل فرمایا، امام حسن(ع) ، اپنى زندگى میں 25 بار پیادہ اور کبھى پابرہنہ زیارت خانہ خدا کے لیے جاتے تھے آپ اکثریاد خداوندی میں گریہ کرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد ہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے۔
اہل سنت کے مشہور فقہیی امام ادریس شافعی لکھتے ہیں: امام حسن (ع) کى سخاوت اور عطا کے سلسلہ اتنا ہى بیان کافى ہے کہ آپ نے اپنى زندگى میں دوبار تمام اموال اور اپنى تمام پونجى خدا کے راستہ میں دیدى اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا
والد گرامى کے ساتھ
رسول (ص) اکرم کى رحلت کے تھوڑے ہى دنوں بعد آپ کے سرسے چاہنے والى ماں کا سایہ بھى اٹھ گیا اس بناپر اب تسلى و تشفى کا صرف ایک سہارا على ؑ کا مہر و محبت سے مملو آغوش تھا امام حسن ؑنے اپنے باپ کى زندگى میں ان کا ساتھ دیا اور ان سے ہم آہنگ رہے۔ ظالموں پر تنقید اور مظلوموں کى حمایت فرماتے رہے اور ہمیشہ سیاسى مسائل کو سلجھانےمیں مصروف رہےجس وقت حضرت عثمان نے پیغمبر(ص) کے عظیم الشان صحابى جناب ابوذر کو شہر بدر کر کے رَبَذہ بھیجنے کا حکم دیا تھا، اس وقت یہ بھى حکم دیا تھا کہ کوئی بھى ان کو رخصت کرنے نہ جائے۔ اس کے برخلاف حضرت على (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور کچھ دوسرے افراد کے ساتھ اس مرد آزاد کو بڑى شان سے رخصت کیا اور ان کو صبر و ثبات قدم کى وصیت فرمائی۔
جنگوں میں شرکت
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے حوالے سے عام عوام یہ نہیں جانتی کہ آپ کتنے بہادر اور دلیر تھے اور جنگوں میں آپ نے کونسے کارنامے انجام دیے ہیں ، ذیل میں ہم ان کے چند واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں
جنگ جمل:
36 ھ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ سے بصرہ راوانہ ہوئے تاکہ جنگ جمل کی آگ جس کو عائشہ وطلحہ وزبیر نے بھڑ کا یا تھابجھادے بصرہ کے مقام ذى قار میں داخل ہونے سے پہلے على (ع) کے حکم سے عمار یاسر کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کو جمع کریں۔ آپ کى کوششوں اور تقریروں کے نتیجہ میں تقریباً بارہ ہزار افراد امام کى مدد کے لئے آگئے۔آپ نے جنگ کے زمانہ میں بہت زیادہ تعاون اور فداکارى کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ اما م ع کے لشکر کو فتح نصیب ہوئی ۔
جنگ صفین:
جنگ صفین میں بھى آپ نے اپنے پدربزرگوار کے ساتھ ثبات قدم کا مظاہرہ فرمایا۔ اس جنگ میں معاویہ نے عبداللہ ابن عمر کو امام حسن مجتبى (ع) کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ آپ اپنے باپ کى حمایت سے دست بردار ہوجائیں تومیں خلافت آپ کے لئے چھوڑ دونگا۔ اس لئے کہ قریش ماضى میں اپنے آباء و اجداد کے قتل پر آپ کے والد سے ناراض ہیں لیکن آپ کو وہ لوگ قبول کرلیں گے لیکن امام حسن (ع) نے جواب میں فرمایا:نہیں ، خدا کى قسم ایسا نہیں ہوسکتا پھر اس کے بعد ان سے خطاب کرکے فرمایا: گویا میں تمہارے مقتولین کو آج یا کل میدان جنگ میں دیکھوں گا، شیطان نے تم کو دھوکہ دیا ہے اور تمہارے کام کو اس نے اس طرح زینت دى ہے تم نے خود کو سنوارا اور معطّر کیا ہے تا کہ شام کى عورتیں تمہیں دیکھیں اور تم پر فریفتہ ہوجائیں لیکن جلد ہى خدا تجھے موت دے گا _امام حسن ؑاس جنگ میں آخر تک اپنے پدربزرگوار کے ساتھ رہے اور جب بھى موقع ملا دشمن پر حملہ کرتے اور نہایت بہادرى کے ساتھ موت کے منہ میں کود پڑتے تھے آپ (ع) نے ایسى شجاعت کا مظاہرہ فرمایا کہ جب حضرت على (ع) نے اپنے بیٹے کى جان، خطرہ میں دیکھى تو مضطرب ہوئے اور نہایت درد کے ساتھ آواز دى کہ اس نوجوان کو روکو میں ان دونوں حسن و حسین علیہما السلام کى موت سے ڈرتا ہوں کہ ان کى موت سے نسل رسول (ص) خدا منقطع نہ ہوجائے ۔شہادت سے پہلے حضرت على (ع) نے پیغمبر(ص) کے فرمان کى بناء پر حضرت حسن (ع) کو اپنا جانشین معین فرمایا اور اس امر پر امام حسین (ع) اور اپنے تمام بیٹوں اور بزرگ شیعوں کو گواہ قرار دیا
دوران امامت
21رمضان المبارک سن 40 ہجری کو حضرت علی (ع) کی شہادت ہو گئی۔اس کے بعد لوگ شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوئے، حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے پدر بزرگوار کی شہادت کے اعلان اور ان کے فضائل بیان کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایا، حضرت علی علیہ السلام کے بعد تمام مسلمانوں نے متفقہ طور پر امام حسن ع کی خلافت تسلیم کی . آپ پر اپنے والد کی وفات کا بہت گہرا اثر تھا. آپ نے اس موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں حضرت علی ابن ابی طالب کے فضائل و مناقب کے ساتھ بیان کرتے ہوے خاص طور پر آپ کی سیرت و ترک دنیا کیا اور اس ذکر میں گریہ آپ کے گلو گیر ہوا اور تمام حاضرین بھی آپ کے ساتھ بے اختیار رونے لگے. پھر آپ نے اپنے ذاتی اور خاندانی فضائل بیان کیے .اس کے بعد عبدللہ بن عبّاس نے کھڑے ہو کر لوگوں کو آپ کی بیعت کرنے کی طرف دعوت دی اور سب نے برضا و رغبت آپ کی بیعت کی- آپ نے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ قول و قرار لے لیا تھا کہ اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہو گی اور اگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ جنگ کرنا ہوگی. اس کے بعد آپ ملک کے بندوبست کی طرف متوجہ ہوے- اطراف میں عمال مقرر کئیےاور حکام معین کیے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے۔لوگ چھوٹے چھوٹے دستوں میں آپ کے پاس آتے اور بیعت کرتے رہے
کتاب امالی شیخ طوسی جلد اول میں کچھ اسطرح سے بیا ن ہوا ہے : جب آپ ؑ کی امر خلافت پر جب بیعت کی گئی ۔ آپ ؑ نے لوگوں سے جو پہلاخطبہ ارشاد فرمایا وہ یو ں تھا:
ہم اللہ کی وہ جماعت ہے جو ہمیشہ غالب رہنے والی ہے۔ہم اس کے رسول کی وہ عترت ہیں جو سب سے زیادہ ان کے قریب ہیں ،ہم ان کی آل ہیں جو پاک و طاہر ہیں ہم ان کے دو گراں قدر چیزوں میں سے ایک ہیں جن کو رسول خداؐ اپنے پیچھے اپنی امت میں چھوڑکر گئےہیں اور دوسری چیز جو گراں قدر ہے وہ اللہ کی کتا ب (یعنی قرآن ) ہے کہ جس میں ہر چیز کا بیا ن تفصیل سے موجود ہے یہ وہ کتاب ہے جس کے سامنے اور پیچھے دونوں طرف سے باطل اس میں نہیں آسکتا اور اس کی تفسیر میں ہم پر اعتماد کیا جاتا ہے ہم اس کی تفسیر یقین کی بنیادوں پر بیان کرتے ہیں۔ پس ہماری اطاعت کرو کیونکہ ہماری اطاعت واجب اور فرض قراردی گئی ہے کیونکہ ہماری اطاعت کو قرآن پاک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ ملایا گیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔یآیھاالذین اٰمنو اطیعو اللہ وَاطیعوالرسولَ ووالیِ الامرِ منکم ْ فان تنازعتم فی شیءفردوہ الی اللہ والرسولِ
“اے ایمان والو : اطاعت کرواللہ کی اطاعت کرو رسول کی اوران صاحبانِ امر جو تم سے ہیں پس اگر تم کسی چیز میں نزاع اور جھگڑا کرو تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف کی طرف پلٹادو”
لا غالبَ لکم الیوم من الناس والی جارلکم فلماترآءتِ الفئتٰنِ نکص علیٰ عقبیہ و قال انی بریءٌ منکم انی ارٰی مالاترونَ ؛آج لوگوں میں سے کوئی بھی تم پر غالب نہیں ہوسکتا اور میں بھی تم بھی لوگوں کا حمایتی ہوں۔ لیکن جب اس پر دوگراں کو دیکھاتواُلٹے پاؤں مڑگیا اور کہہ رھا تھا ۔ میں تم سے بری ہوں کیونکہ جو کچھ میں دیکھ رہاہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے۔
لا ینفع نفسااِیمانُھا لم تکن اٰمنت من قبل او کسبت فی اِیمانھاخیرا؛”ایسے شخص کا ایمان اس کو فائدہ نہیں دے گا جو پہلے سے ایمان یافتہ نہ ہو یااس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیاہو۔
نہایت ہی غیر اطمینان نیز مضطرب و پیچیدہ صورت حال میں کہ جو آپ کو اپنے پدر بزرگوار کی زندگی کے آخری مراحل میں در پیش تھی، آپ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ نے حکومت کو ایسے لوگوں کے درمیان شروع کیا جو جہاد کی حکمت عملی اور اس کے اعلی مقاصد پر زیادہ ایمان نہیں رکھتے تھے، کیونکہ ایک طرف آپ (ع) پیغمبر (ص) و علی (ع) کی طرف سے اس عہدہ کے لیے منصوب تھے اور دوسری طرف لوگوں کی بیعت اور ان کی آمادگی نے بظاہر ان پر حجت تمام کر دی تھی، ابھی ملک حضرت علی کے غم میں سوگوار ہی تھا اور حضرت امام حسن علیہ السلام پورے طور پر انتظامات بھی نہ کر چکے تھے کہ معاویہ کی طرف سے آپ کی مملکت میں دراندازی شروع ہو گئی اور ان کے خفیہ کارکن ریشہ دوانیاں کرنے لگے. چناچہ ایک شخص قبیلہ حمیرہ کا کوفہ میں اور ایک شخص بنی قین میں سے بصرہ میں پکڑا گیا – یہ دونوں اس مقصد سے آئے تھے کہ یہاں کے حالات سے دمشق میں اطلاع دیں اور فضا کو امام حسن علیہ السلام کے خلاف ناخوشگوار بنائیں. غنیمت یہ کہ انکشاف ہو گیا- حمیر والا آدمی کوفہ میں ایک قصائی کے گھر سے اور قین والا بصرہ میں بنی سلیم کے یہاں سے گرفتار کیا گیا اور دونوں کو جرم کی سزا دی گئی .
حاکم شام کی وعدہ خلافی:
جس بہانے سے قریش نے حضرت علی ؑ سے روگردانی کی اور ان کی کم عمری کو بہانہ بنایا۔ معاویہ نے بھی اسی بہانے کی وجہ سے امام حسن ؑ کی بیعت سے انکار کیا معاویہ نہ صرف بیعت سے انکار کیا بلکہ وہ امام کو درمیان سے ہٹا دینے کی کوشش کرنے لگا بعض لوگ کو اس نے خفیہ طور پر اس بات پر معین کیا کہ امام کو قتل کردیں۔اس بناء پر امام حسن (ع) لباس کے نیچے زرہ پہنا کرتے تھے اور بغیر زرہ کے نماز کے لیے نہیں جاتے تھے، معاویہ کے بندوں میں سے ایک شخص نے ایک دن امام حسن (ع) کی طرف تیر پھینکا لیکن پہلے سے کیے گئے انتظام کی بناء پر آپ کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔  
معاویہ نے اتحاد کے بہانے اور اختلاف کو روکنے کے حیلے سے اپنے عمّال کو لکھا:
تم لوگ میرے پاس لشکر لے کر آؤ پھر اس نے اس لشکر کو جمع کیا اور امام حسن (ع) سے جنگ کرنے کے لیے عراق کی طرف بھیجا۔ امام حسن (ع) نے بھی حجر ابن عدی کندی کو حکم دیا کہ وہ حکام اور لوگوں کو جنگ کے لیے آمادہ کریں۔ امام حسن (ع) کے حکم کے بعد کوفہ کی گلیوں میں منادی نے الصّلوة الجامعة، کی آواز بلند کی اور لوگ مسجد میں جمع ہو گئے، امام حسن (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ:
معاویہ یہ تمہاری طرف جنگ کرنے کے لیے آرہا ہے تم بھی نخیلہ کے لشکر گاہ کی طرف جاؤ پورے مجمع پر خاموشی طاری رہی۔حاتم طائی کے بیٹے عدی نے جب ایسے حالات دیکھے تو اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا سبحان اللہ یہ کیسا موت کا سناٹا ہے جس نے تمہاری جان لے لی ہے ؟ تم امام (ع) اور اپنے پیغمبر (ص) کے فرزند کا جواب نہیں دیتے۔  خدا کے غضب سے ڈرو، کیا تم کو ننگ و عار سے ڈر نہیں لگتا … ؟ پھر امام حسن (ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:میں نے آپ کی باتوں کو سنا اور ان کی بجا آوری کے لیے حاضر ہوں۔  پھر اس نے مزید کہا کہ اب میں لشکر گاہ میں جا رہا ہوں، جو آمادہ ہو وہ میرے ساتھ آ جائے۔  قیس ابن سعد، معقل ابن قیس اور زیاد ابن صَعصَعہ نے بھی اپنی پر زور تقریروں میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلائی پھر سب لشکر گاہ میں پہنچ گئے۔امام حسن (ع) نے لشکر کے ایک دستہ کو حَكَم کی سرداری میں شہر انبار کی طرف بھیجا، لیکن وہ معاویہ سے جا ملا اور اس کی طرف چلا گیا۔حَكَم کی خیانت کے بعد امام (ع) مدائن کے مقام  ساباط تشریف لے گئے اور وہاں سے بارہ ہزار افراد کو عبید اللہ ابن عباس کی سپہ سالاری میں معاویہ سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا اور قیس ابن سعد کو بھی اس کی مدد کے لیے منتخب فرمایا کہ اگر عبید اللہ ابن عباس شہید ہو جائیں تو وہ سپہ سالاری سنبھال لیں۔
معاویہ ابتدا میں اس کوشش میں تھا کہ قیس کو دھوکہ دے دے ، اس نے دس لاکھ درہم قیس کے پاس بھیجے تاکہ وہ اس سے مل جاے یاکم از کم امام حسنؑ سے الگ ہو جاے قیس نے اس کے پیسوں کو واپس کردیا اور جواب میں کہا تم دھوکے سےمیرے دین کو میرے ہاتھوں سے نہیں چھین سکتے،
لیکن عبید اللہ ابن عباس صرف اس پیسہ کے وعدہ پر دھوکہ میں آ گیا اور راتوں رات اپنے خاص افراد کے ایک گروہ کے ساتھ معاویہ سے جا ملا، صبح سویرے لشکر بغیر سر پرست کے رہ گیا، قیس نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور اس واقعہ کی خبر امام حسن (ع) کو بھیج دی۔  
قیس نے بڑی بہادری سے جنگ کی چونکہ معاویہ قیس کو دھوکہ دینے میں ناکام رہا، اس لیے اس نے عراق کے سپاہیوں کے حوصلے کو پست کرنے کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس نے امام حسن (ع) کے لشکر میں، چاہے وہ مَسکن، نہر دجیل کے کنارے پر ایک جگہ کا نام ہے، یا مدائن میں ، چند جاسوس بھیجے تا کہ وہ جھوٹی افواہیں پھیلائیں اور سپاہیوں کو وحشت میں مبتلا کریں۔ مقام مَسکن میں یہ پروپیگنڈہ کر دیا گیا کہ امام حسن (ع) نے معاویہ سے صلح کی پیشکش کی ہے اور معاویہ نے بھی قبول کر لی ہے۔
ان افواہوں نے امام حسن ؑ کے سپاہوں کے حوصلوں کو توڑدیا اور یہ پروپیگنڈے امام کے اسی لشکر کے کمزور ہونے کا سبب بنے جو لشکر ہر لحاظ سے طاقت ور اور مضبوط تھا۔معاویہ کی سازشوں اور افواہوں سے خوارج اور وہ لوگ جو صلح کے موافق نہ تھے، انہوں نے فتنہ و فساد پھیلانا شروع کر دیا۔ انھیں لوگوں میں سے کچھ افراد نہایت غصّے کے عالم میں امام (ع) کے خیمہ پر ٹوٹ پڑے اور اسباب لوٹ کر لے گئے، یہاں تک کہ امام حسن (ع) کے پیر کے نیچے جو فرش بچھا ہوا تھا اس کو بھی کھینچ لے گئے۔ ان کی جہالت اور نادانی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ بعض لوگ فرزند رسول ﷺکو (معاذاللہ ) کافر کہنے لگے اور جراح ابن سنان تو امام کو قتل کے ارادے سے امام کی طرف لپکا اور چلاکر بولا، اے حسن تم بھی اپنے باپ کی طرح مشرک ہوگئے۔(معاذاللہ) اس کے بعد اس نے حضرت کی ران پر وار کیا اور آپ (ع) زخم کی تاب نہ لا کر زمین پر گر پڑے ، امام حسن (ع) کو لوگ فوراً مدائن کے گورنر سعد ابن مسعود ثقفی کے گھر لے گئے اور وہاں کچھ دنوں تک آپ کا علاج ہوتا رہا۔ اس دوران امام (ع) کو خبر ملی کہ قبائل کے سرداروں میں سے کچھ نے خفیہ طور پر معاویہ کو لکھا ہے کہ اگر عراق کی طرف آ جاؤ تو ہم تم سے یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ حسن (ع) کو تمہارے حوالے کر دیں گے۔معاویہ نے ان کے خطوط کو امام حسن (ع) کے پاس بھیج دیا اور صلح کی خواہش ظاہر کی اور یہ عہد کیا کہ جو بھی شرائط آپ (ع) پیش کریں گے وہ مجھے قبول ہیں۔ ان درد ناک واقعات کے بعد امام (ع) نے سمجھ لیا کہ معاویہ اور اس کے کارندوں کی چالوں کے سامنے ہماری تمام کوششیں ناکام ہیں۔ ہماری فوج کے نامور افراد معاویہ سے مل گئے ہیں، لشکر اور جانبازوں نے اپنے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑ دیا ہے، ممکن ہے کہ معاویہ بہت زیادہ تباہی اور فتنے برپا کر دے۔ مذکورہ بالا باتوں اور دوسری وجوہ کے پیش نظر امام حسن (ع) نے جنگ جاری رکھنے میں اپنے پیروکاروں اور اسلام کا بالکل فائدہ نہیں دیکھا۔ اگر امام (ع) اپنے قریبی افراد کے ہمراہ مقابلہ کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے اور قتل کر دیئے جاتے تو نہ صرف یہ کہ معاویہ کی سلطنت کے پایوں کو متزلزل کرنے یا لوگوں کے دلوں کو جلب کرنے کے سلسلہ میں ذرّہ برابر بھی اثر نہ ہوتا،بلکہ معاویہ اسلام کو جڑسے ختم کر دینے اور سچے مسلمانو ں کا شیر ازہ منتشر کر دینے کےساتھ ساتھ اپنی مخصوص فریب کارانہ روش کے ساتھ لباس عزاپہن کر انتقام خون امام حسن ؑکے لیے نکل پڑتا اور اس طرح فرزند رسول ﷺ کے خون کا داغ اپنے دامن سے دھوڈالتا،خاص کر ایسی صورت میں جب صلح کی پیشکش معاویہ کی طرف سے ہوئی تھی اور وہ امام ؑکی طرف سے ہر شرط قبول کر لینےپر تیار نظر آتا تھا بناء بر این کافی تھا کہ امام (ع) نہ قبول کرتے اور معاویہ ان کے خلاف اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعہ اپنی صلح کی پیشکش کے بعد ان کے انکار کو خلاف حق بناء کر آپ (ع) کی مذمت کرتا اور کیا بعید تھا جیسا کہ امام (ع) نے خود پیشین گوئی کر دی تھی کہ ان کو اور ان کے بھائی کو گرفتار کر لیتا اور اس طریقے سے فتح مکہ کے موقع پیغمبر (ص) کے ہاتھوں اپنی اور اپنے خاندان کی اسیری کے واقعہ کا انتقام لیتا۔  اس وجہ سے امام (ع) نے نہایت سخت حالات میں مجبوری کی حالت میں صلح کی پیشکش قبول کر لی۔
معاویہ کی طرف سے صلح کی پیشکش :
معاویہ نے آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ جن شرائط پر چاہیں صلح کرنے پر تیار ہوں اور اس کے ساتھ آپ کی فوج کے ان سرداروں کے خطوط بھی روانہ کر دیے جنہوں نے خفیہ طور پر معاویہ سے ساز بازی کرنا چاہی اور دعوت دی تھی کہ آپ آیے تو ہم حسنؑ کو گرفتار کر کے آپ کے سپرد کر دیں گے یا ان کو قتل کر ڈالیں گے.امام حسن علیہ السلام پہلے ہی اپنے ساتھیوں کی غداری سے واقف تھے اور اس لئے جنگ کو مناسب وقت خیال نہیں کرتے تھے لیکن یہ ضرور چاہتے تھے کہ کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو کہ باطل کی حمایت کا دھبہ بھی میرے دامن پر نہ آنے پائے. اس خاندان کے لوگوں کو حکومت و اقتدار کی تو خواہش کبھی رہی نہیں، انہیں تو مطلب اس سے تھا کہ مخلوق خدا کی بہتری ہو اور حدود و حقوق الہی کا اجر ہو. اب معاویہ نے جو آپ سے منہ مانگے شرائط پر صلح کرنے کی آمادگی ظاہر کی تو آپ نے نانا اور اپنے والد کی دیکھی ہوئی سیرت کے مطابق مصالحت کے بڑھتے ہوے ہاتھ کو ناکام واپس نہیں کیا. آپ نے صلح کی شرائط مراتب کر کے معاویہ کے پاس روانہ کیے – وہ تمام شرائط جن سے قانونی طور پر آئین و شریعت کا تحفظ ہو جاتا ہے چناچے صلح کی دستاویز مکمل ہوئی اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا.
امام حسن (ع) نے کیوں صلح کی ؟
بحث اول: صلح کرنے کے اسباب و دلائل
الف: اسباب صلح معاویہ اور اسکے طرفداروں کی طرف سے:
معاویہ کا اصل مقصد حکومت حاصل کر نا تھا کہ حکومت کے اصلی قابل اور حقدار امام حسن ؑ ہیں ، اسی لیے وہ ظاہری طور پر ہی سہی امام حسنؑ کو اس کام کے لیے راضی کرنا چاہتا تھا اور اسکے لیے بہترین راستہ امام سے صلح کرنا تھا۔اس صلح کی وجہ سے معاویہ جنگ اور اسکے خطرناک نتائج سے محفوظ رہ سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ فرزند رسول خدا (ص) کا لوگوں کی نگاہوں میں کیا معنوی اور اعتقادی مقام و منزلت ہےتاریخ بھی گوا ہ ہے کہ معاویہ کا اصل ہدف مسلمانوں اور بیت المال کو اپنے اختیا ر میں لینا تھا ۔ کہ جو ہدف صرف نرمی اور صلح کے ذریعے حاصل ہو سکتا تھا، کیونکہ خود معاویہ نے نخیلہ کے مقام پر اپنے خطبے میں واضح طور پر کہا تھامیں نے تم لوگوں پر مسلط ہونے کے لیے تم سے جنگ کی اور یہ چیز خدا نے مجھے (صلح کے سبب) دے دی ہے اور حالانکہ تم میرے اس کام پر راضی نہیں تھے۔ اس ہدف کے ساتھ ساتھ معاویہ کا خیال تھا کہ امام حسن ؑ کا حکومت سے کنارہ گیری کرنا یہ عام لوگوں کی نظروں میں امام کا خلافت سے کنارہ گیری کرنا شمار ہوگا کہ جو اسکے فائدے میں ہو گا اور اسطرح سے وہ قانونی طور پر خلیفہ جانا اور مانا جائے گا۔ اس بات کی دلیل وہ بیعت ہے کہ جو معاویہ لوگوں سے اپنے لیے بعنوان خلیفہ لیتا تھا، یعنی وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ میری مسلمانوں کے خلیفہ ہونے کے لیے بیعت کرو۔اس صلح کا ایک دوسرا نتیجہ یہ تھا  کہ اگر امام حسن (ع) اس صلح کی پیشکش کو ٹھکرا دیتے اور معاویہ سے جنگ کرنے پر ہی اصرار کرتے تو امام کی شہادت کی صورت میں امام کی حمایت میں اور معاویہ کے خلاف ہونے والے قیام اور تحریکوں کا کوئی اثر اور نتیجہ حاصل نہ ہوتا۔واضح ہے کہ امام حسن (ع) کی طرف سے حکمت عملی کے طور پر صلح (ترک جنگ) کو قبول کرنے کے بعد،امام حسن ؑ کے قتل کا ذمہ دار معاویہ ہوگا ، اس لیے کہ خود امام حسن نے معاویہ کے خلافت تک ہر صورت میں پہنچنے کے لیے اسکے خطرناک ارادوں کو جان لیا تھا اور حتی معاویہ کے سامنے اسکو وقتی طور پر حکومت دینے اور حکومت و خلافت کے درمیان فرق کے موضوع کو بیان کیا کرتے تھا۔
ب. اسباب صلح امام حسن (ع) اور انکے طرفداروں کی طرف سے:
دقیق معرفت کے ساتھ دو مخالف گرہوں (صالحان و گمراہان) کو جاننے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی دنیا سے محبت اور دین سے دوری ،سبب بنی کہ امام حسن ؑ نے مجبور ہو کر صلح کی پیشکش کو قبول کر لیا ، لہذا خود امام نے بھی ان دو عامل کو صلح کا اصلی سبب قرار دیا ہے اور ان لوگوں « عبيد الدنيا » (دنیا کے بندے و غلام) کے نام سے یاد کیا ہے۔اسی نظرئیے کی دلیل کو لوگوں کا معاویہ سے جنگ کرنے کے لیے امام حسن (ع) کے لشکر میں حاضر نہ ہونے کو بھی، قرار دیا جا سکتا ہے۔ خود امام حسن ؑ نے فرمایا ، بہت تعجب کی بات ہے کہ لوگوں میں نہ حیا ہے اور نہ ہی دین، اف ہو تم لوگوں پر اے دنیا کے غلامو ۔۔۔جب امام حسن (ع) نے فرمایا:معاویہ ہمیں اس چیز کی دعوت دے رہا ہے کہ سچ کو قبو ل کرنے میں عزت اور عدالت نہیں ہے ،لیکن اگر تم دنیا کی زندگی چاہتے ہو تو ہم اسکی بات کو قبول کر لیتے ہیں اور اس درد ناک کانٹے کو اپنی آنکھوں میں برداشت کر لیتے ہیں اور اگر شہادت چاہتے ہو تو وہ بھی راہ خدا میں ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ راوی کہتا ہے: سب نے یک زبان ہو کر کہا:«بل البقية و الحياة.»ہم زندہ رہنا اور زندگی چاہتے ہیں۔
معاہدہ صلح:
معاہدہ صلح امام حسن (ع) کا متن اسلام کے مقدس مقاصد اور اہداف کو بچانے میں آپ کی کوششوں کا آئینہ دار ہے۔ جب کبھی کوئی منصف مزاج اور باریک بین شخص صلح نامہ کی ایک ایک شرط کی تحقیق کرے گا تو، بڑی آسانی سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ امام حسن (ع) نے کن خاص حالات میں اپنی اور اپنے پیروکاروں اور اسلام کے مقدس مقاصد کو بچایا تھا۔
امام حسن ؑ حکومت معاویہ کے سپرد کر رہے ہیں، اس شرط پر کہ معاویہ قرآن و سیرت پیغمبر (ص) اور شائستہ خلفاء کی روش پر عمل کرے گا۔
2۔بدعت اور علیؑ کے لیے ناسزا کلمات ہر حال میں ممنوع قرار پا ئیں اور ان کی نیکی کے سوا اور کسی طرح یاد نہ کیا جائیےگا
3۔کوفہ کے بیت المال میں پچاس لاکھ درہم موجود ہیں، وہ امام مجتبی (ع) کے زیر نظر خرچ ہوں گے اور معاویہ داراب گرد کی آمدنی سے ہر سال دس لاکھ درہم جنگ جمل و صفین کے ان شہداء کے پسماندگان میں تقسیم کرے گا، جو حضرت علی (ع) کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید کر دیئے گئے تھے۔
 4۔معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین نہیں کرے گا۔
 5۔ہر شخص چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو اس کو مکمل تحفظ ملے اور کسی کو بھی معاویہ کے خلاف اس کے گذشتہ کاموں کی بنا پر سزا نہ دی جائے۔ 
6۔ علی ؑ کے چاہنے والے جہا ں کہیں بھی ہوں گے محفوظ رہیں گے اور کوئی ان کو تنگ نہیں کرے گا،
امام (ع) نے اور دوسری شرطوں کے ذریعہ اپنے بھائی امام حسین (ع) اور اپنے چاہنے والوں کی جان کی حفاظت کی اور اپنے چند اصحاب کے ساتھ جن کی تعداد بہت ہی کم تھی، ایک چھوٹا سا اسلامی لیکن با روح معاشرہ تشکیل دیا اور اسلام کو حتمی فنا سے بچا لیا۔
معاویہ کی پیمان شکنی:
معاویہ وہ نہیں تھا، جو معاہدہ صلح کو دیکھ کر امام (ع) کے مطلب کو نہ سمجھ سکے۔ اسی وجہ سے صلح کی تمام شرطوں پر عمل کرنے کا عہد کرنے کے باوجود صرف جنگ بندی اور مکمل غلبہ کے بعد ان تمام شرطوں کو اس نے اپنے پیروں کے نیچے روند دیا اور مقام نُخَیلہ میں ایک تقریر میں صاف صاف کہہ دیا کہ:میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی کہ تم نماز پڑھو روز رکھو اور حج کے لیے جاؤبلکہ میری جنگ اس لیے تھی کہ میں تم پر حکومت کروں اور اب میں حکومت کی کرسی پر پہنچ گیا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ صلح کے معاہدہ میں جن شرطوں کو میں نے ماننے کیلئے کہا تھا، ان کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہوں اور ان کو پورا نہیں کروں گا۔ 
لہذا اس نے اپنے تمام لشکر کو امیر المؤمنین علی (ع) کی شان میں نا سزا کلمات کہنے پر برانگیختہ کیا۔ اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ انکی حکومت صرف امام کی اہانت اور ان سے انتقامی رویہ کے سایہ میں استوار ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ مروان نے اس کو صاف لفظوں میں کہہ دیا تھاکہ: علی کو دشنام دیے بغیر حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔
دوسری طرف امیر المؤمنین علی (ع) کے چاہنے والے جہاں کہیں بھی ملتے، ان کو مختلف بہانوں سے قتل کر دیتا تھا۔ اس زمانہ میں تمام لوگوں سے زیادہ کوفہ کے رہنے والے سختی اور تنگی سے دوچار تھے، اس لیے کہ معاویہ نے مغیرہ کے مرنے کے بعد کوفہ کی گورنری کو زیاد کے حوالہ کر دیا تھا اور زیاد شیعوں کو اچھی طرح پہچانتا تھا وہ ان کو جہاں بھی پاتا، بڑی بے رحمی سے قتل کر دیتا تھا۔
شیخ صدوق اپنی کتاب علل الشرالع میں اپنی سند سے ابو سعید العقیصا سے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام حسن کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے فرزند رسول خدا ! آپ جانتے تھے کہ حق آپ کی جانب ہے تو پھر گمراہ اور ظالم معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی ؟امام نے جواباً فرمایا:
اے ابا سعید ! کیا میں خدائے تعالی کی مخلوق پر اس کی حجت اور تمہارا امام و رہبر نہیں ہوں ؟
اس نے کہا: کیوں نہیں ۔فرمایا: کیا میں وہی نہیں ہوں کہ رسول اللہؐ نے میرے اور میرے بھائی حسین کے بارے میں فرمایا:حسن اور حسین دونوں امام ہیں چاہے وہ قائم ہوں اور حکومت قائم کیے ہوئے ہوں، چاہے بیٹھے ہوں اور حکومت سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہوں ،اس نے کہا: کیوں نہیں !پس میں امام اور رہبر ہوں خواہ قیام کروں خواہ نہ کروں۔ اے ابا سعید کیا تم نے خضرؑ کو نہیں دیکھا جب انھوں نے کشتی میں سوراخ کر دیا اور اس لڑکے کو قتل کیا اور اس دیوار کو تعمیر کیا ان کے اس کام کو حضرت موسی ؑ کی تنقیدکانشانہ بنناپڑا کیو نکہ انہیں اس کام کا راز معلوم نہ تھا اور جب خضر نے اپنے اعمال کا راز موسیؑ کو بتایا تو وہ راضی ہوگئے۔
یہی ہے میرا معاملہ، چونکہ تم میرے اس اقدام کے اسرار سے ناواقف ہو مجھ پر اعتراض کر رہے ہو۔ میرے اس اقدام کا ایک راز یہ ہے کہ اگر میں یہ کام نہ کرتا تو ہمارے پیروکاروں اور شیعیان آل محمد میں سے حتی ایک فرد بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔ اور وہ سب کو قتل کر دیا جاتا۔
صلح امام حسنؑ پر اعتراض:
امام حسنؑ کا امیر شام معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے جو اُس وقت سے اب تک زیر بحث چلا آرہا ہے۔ اما م کے دور میں بھی بعض اشخاص نے صلح امام حسن پر اعتراض کیا دیگر ائمہ کے ادوار میں بھی کچھ لوگ اسی طرح کے اعتراض کرتے رہے۔ اعتراض کرنے والے اگر حقیقت حال کا مطالعہ کرلیتے تو وہ صلح امام حسنؑ پر کبھی اعتراض نہ کرتے کیونکہ امام حسن ؑکی صلح اور امام حسینؑ کے قیام میں بہت بڑا فرق ہے۔ حالات اور ماحول کا بہت فرق تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام حسن ؑچونکہ ایک صلح پسند تھے اور امام حسینؑ جنگجوتھے اس لئے ایک جگہ پر صلح ہوئی اور دوسری جگہ پر جنگ اور قتل و کشارجیسی صورت حال پیدا ہوگئی حا لانکہ ایسا نہیں تھا۔ یہ دونو ں شہزادے حق پر تھے انہوں نے جو بھی اقدام کیا وہ بھی حق پر تھا۔ اگر امام حسن ؑ امام حسین ؑکی جگہ پر ہوتے یا امام حسینؑ امام حسنؑ کی جگہ پر ہوتے تو ایک جیسی صورت حال پیدا ہو تی۔صلح امام حسن کے وقت حالات اور طرح کے تھے اور کربلا میں زمانہ اور حا لا ت کا رخ کچھ اور تھا امام حسن ؑکے دور امامت میں اسلام کی بقاء اس خاموشی میں مضمر تھی اور کربلا میں اسلام جہاد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
شہادت:
معاویہ جو امام (ع) کی کمسنی کے بہانے سے اس بات کے لیے تیار نہیں تھا کہ آپ (ع) کو خلافت دی جائے، وہ اب اس فکر میں تھا کہ اپنے نالائق جوان بیٹے یزید کو ولی عہدی کے لیے نامزد کرے تا کہ اس کے بعد مسند سلطنت پر وہ متمکن ہو جائے۔اور ظاہر ہے کہ امام حسن (ع) اس اقدام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے، اس لیے کہ اگر معاویہ کے بعد امام حسن (ع) مجتبیٰ زندہ رہ گئے تو ممکن ہے کہ وہ لوگ جو معاویہ کے بیٹے سے خوش نہیں ہیں، وہ امام حسن (ع) کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کے بیٹے کی سلطنت کو خطرہ میں ڈال دیں لہذا یزید کی ولی عہدی کے مقدمات کو مضبوط بنانے کے لیے اس نے امام حسن (ع) کو راستے سے ہٹا دینے کا ارادہ کیا۔ آخر کار اس نے شیطانی مکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے، امام حسن (ع) کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعے سے آپ (ع) کو زہر دے دیا اور امام معصوم (ع) 47 سال کی عمر میں شہید ہو گئے اور مدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن ہوئے۔ 
مصائب امام حسن مجتبیٰ(ع):
آپ حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد مسلسل دشمنوں کے مصائب کا نشانہ رہے، خاص طور پر اسلام اور محبان اہل بیت ؑ کی حفاظت کے لیے خاموشی سے معاویہ کا ظلم و ستم برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کے دوستوں نے بھی آپ سے بے وفائی کی۔ آپ نے چھ مہینے خلافت کی اور صلح کے بعد مدینہ چلے گئے اور تا آخر عمر وہیں رہے۔
معاویہ کی خونخوار سازش:
معاویہ کی قاتلانہ سازش یہ تھی کہ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ پوشیدہ طریقے سے امام حسن کو قتل کر دیا جائے۔ اپنے اس ارادے کو پورا کرنے کے لیے اس نے چار منافقوں کا الگ الگ انتخاب کیا ، ہر ایک سے کہا کہ اگر تم نے حسن ابن علی کو قتل کر دیا تو میں تمہیں دو لاکھ درہم اور شام کا فوجی افسر بنا دوں گا۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹی سے شادی کر دوں گا۔ ان چار کا نام تھا:
1- عمرو ابن حریث
2- اشعث ابن قیس
3- حجر ابن الحارث
4- شبث بن ربعی ۔
معاویہ نے جن انعامات کا اعلان کیا تھا انہیں حاصل کرنے کےلیے اس سب نے حامی بھرلی۔
معاویہ نے ان سب پر جاسوس مقرر کر دیئے جو پوشیدہ طور پر ان کی کارکردگی کی رپورٹ معاویہ کو بھیجتے رہتے تھے۔
امام حسن کو اس سازش کی خبر ہو گئی۔ اس کے بعد آپ مکمل طور پر نگران رہے کہ یہ سازش اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، کیونکہ آپ ہر وقت لباس کے نیچے زرہ پہنتے تھے، یہاں تک کہ اسی زرہ میں آپ نماز بھی پڑھتے تھے، آخر ایک سازشی نے حالت نماز میں آپ پر تیر چلا دیا ، لیکن اس زرہ کی وجہ سے تیر کا زخم بدن پر نہ لگا۔ 
امام حسن (ع) کو زہر دیا گیا:
جعدہ بنت اشعث امام حسن (ع) کی زوجہ تھی ، معاویہ نے اسے ایک لاکھ درہم بھیجا اور پیغام بھیجا کہ اگر حسن ابن علی کو زہر دو گی تو، تمہاری شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دوں گا ، جعدہ نے معاویہ کی یہ پیش کش قبول کر لی اور امام حسن کو زہر دیدیا۔
معاویہ نے جعدہ کے پاس سیّال زہر بھیجا، امام حسن (ع) روزے سے تھے، ہوا گرم تھی ، افطار کے وقت جعدہ نے وہ زہر آپ کے دودھ کے پیالے میں ملا کر امام کی خدمت میں پیش کیا ، امام نے اسے پیا تو فوراً زہر محسوس کر لیا ، جعدہ سے فرمایا :تو نے مجھے قتل کیا خدا تجھے قتل کرے ۔ خدا کی قسم تیری آرزو پوری نہ ہوگی خدا تجھے ذلیل کرے گا۔
دو دن کے بعد آپ نے اسی زہر سے شہادت پائی۔ معاویہ نے جعدہ سے جو قول و قرار کیا تھا، اسے پورا نہ کیا، یزید سے اس کی شادی نہیں کی، اس نے امام حسن کے بعد خاندان طلحہ کے ایک شخص سے شادی کر لی، اور اس سے کئی بچے ہوئے، جب ان بچوں کے خاندان اور خاندان قریش کے درمیان تکرار ہوتی تو انہیں کہا جاتا: 
یا بنی مسمّة الازواج، ؛اے ایسی عورت کے بیٹو جو اپنے شوہروں کو زہر دیتی ہیں،
روایت ہے کہ جعدہ معاویہ کے پاس گئی اور کہا: میری یزید سے شادی کر دو۔ اس نے جواب دیا:
اذهبی فان الامرأة لا تصلح للحسن بن علی لا تصلح لابنی یزید؛دفع ہوجاؤ تجھ جیسی عورت نے حسن ابن علی سے وفا نہیں کی تو میرے بیٹے یزید سے کیا وفا کرے گی۔
عمر ابن اسحاق کا بیان ہے کہ: میں حسن و حسین کے ساتھ گھر میں تھا، اتنے میں امام حسن طہارت کے لیے گھر سے باہر گئے، واپس آ کر فرمایا کہ کئی بار مجھے زہر دیا گیا لیکن اس مرتبہ سب سے شدید تھا، میرے جگر کا ایک ٹکڑا گرا ہے، اسے میں نے اپنے اس عصا سے حرکت دی ہے۔ امام حسین نے پوچھا: کس نے آپ کو زہر دیا ہے ؟
امام حسن نے فرمایا: اس سے تم کیا چاہتے ہو ؟ کیا اسے قتل کرو گے ؟ جسے میں سمجھتا ہوں اس پر تم سے زیادہ خدا عذاب کرے گا
اور اگر وہ نہ ہو تو میں نہیں چاہتا کہ بے گناہ میری وجہ سے گرفتار ہو۔ 
ایک دوسری روایت میں حضرت صادق آل محمد (ع) کا ارشاد ہے کہ: جس وقت امام حسین اپنے بھائی کے سرہانے آئے اور حالت دیکھی تو رونے لگے۔ امام حسن نے پوچھا، بھائی کیوں روتے ہو ؟
امام حسین نے کہا: کیسے گریہ نہ کروں کہ آپ کو مسموم دیکھ رہا ہوں، لوگوں نے مجھے بے بھائی کر دیا ہے۔
امام حسن نے فرمایا: میرے بھائی ! اگرچہ مجھے زہر دیا گیا ہے لیکن جو کچھ ( پانی ، دودھ ، دوا وغیرہ ) چاہوں یہاں مہیا ہے۔ بھائی بہنیں اور خاندان کے افراد میرے پاس موجود ہیں ۔
لا یوم کیومک یا ابا عبد اللّه؛اے ابا عبد اللہ ! تمہاری طرح میری حالت تو نہیں ہے ، تم پر 30 ہزار اشقیاء کا ہجوم ہو گا، جو دعویٰ کریں گے کہ ہم امت محمدی میں سے ہیں۔ وہ تمہارا محاصرہ کر کے قتل کریں گے ، تمہارا خون بہائیں گے، تمہاری عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں گے ، تمہارا مال لوٹ لیں گے ۔ اس وقت بنی امیہ ہر خدا کی لعنت رواہوگی۔میرے بھائی تمہاری شہادت دل گداز ہے دیبکی علیک کلّ شئی حتیٰ الوحشِ فی الفلوات و الحیتان فی البحار،تم پر تمام چیزیں گریہ کریں گی یہاں تک کہ حیوانات صحرائی و دریائی تمہاری مصیبت پر روئیں گے۔
امام حسین (ع) سے وصیت:
امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں کہ امام حسن (ع) پر حالت احتضار طاری ہوئی ، امام حسین سے کہا : میرے بھائی تم سے وصیت کرتا ہوں اس کا لحاظ کرنا اور پوری کرنا:
جب میں مر جاؤں تو دفن کا انتظام کرنا ، پھر مجھے قبر رسول (ص) پر لے جانا تا کہ ان سے تجدید عہد کروں، پھر مجھے قبر مادر پر لانا پھر بقیع میں لے جانا کر دفن کر دینا، یہ سمجھ لو کہ حمیرا (عائشہ) جس کی دشمنی و عناد میرے خاندان سے سبھی جانتے ہیں، اس کی طرف سے مجھ پر مصیبت ڈھائی جائے گی۔
جس وقت حضرت امام حسن (ع) شہید ہو گئے، جنازے کو تابوت میں رکھا گیا ، جہاں رسول (ص) نماز پڑھتے تھے وہیں لے جایا گیا، امام حسین (ع) نے نماز جنازہ پڑھائی، وہاں سے قبر رسول (ص) پر لیجا کر تھوڑی دیر کے لیے رکھا گیا۔
اعتراض عائشہ اور امام حسین (ع) کا جواب:
حضرت عائشہ کو خبر دی گئی کہ بنی ہاشم جنازے کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، بی بی عائشہ ایک خچر پر سوار ہو کر وہاں پہنچ گئی اور ڈیرا ڈال دیا کہنے لگی 
نحّوا ابنکم عن بیتی؛اپنے فرزند کو میرے گھر سے باہر لے جاؤ، کیونکہ یہاں کوئی چیز دفن نہیں ہو سکتی ، حجاب رسول کو پارہ نہیں ہونا چاہیے۔
امام حسین (ع) نے اس سے فرمایا: :
آپ نے اور آپ کے باپ نے تو پہلے ہی حجاب رسول کو پارہ پارہ کر دیا ہے، تم نے رسول کے گھر ایسے کو ابو بکر پہنچا دیا ہے کہ رسول کو اس کی قربت نا پسند تھی ، خداوند تم سے اس کی باز پرس کرے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے بھائی حسن نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ قبر رسول (ص) پر لے جانا تا کہ تجدید عہد کروں۔ تم سمجھ لو کہ میرے بھائی تمام لوگوں سے زیادہ خدا و رسول اور معنی قرآن کو سمجھتے تھے، وہ حجاب رسول کے پارہ ہونے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اگر ان کا دفن ہونا میری رائے میں مناسب ہوتا تو سمجھ لو کہ تمہاری خواہش کے بر خلاف یہاں ضرور دفن ہوتے۔ 
اس کے بعد محمد حنفیہ نے فرمایا :
اے عائشہ! ایک دن تم خچر پر سوار ہوئی اور ایک دن تم اونٹ پر سوار ہوئی تھی، تمہیں جو بنی ہاشم سے نفرت ہے اس کی وجہ سے نہ تو تم اپنے اختیار میں ہو، نہ چین سے رہ سکتی ہو۔
عائشہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا: اے حنفیہ کے بیٹے ! یہ فرزندان فاطمہ ہیں جو مجھ سے بات کر رہے ہیں، تم کیوں بیچ میں بول رہے ہو۔
امام حسین (ع) نے فرمایا : محمد کو بنی فاطمہ سے الگ کیوں کر رہی ہو، خدا کی قسم ! اسے تین فاطمہ نے جنم دیا ہے۔ فاطمہ بنت عمران (مادر ابو طالب )، فاطمہ بنت اسد (مادر علی ) فاطمہ بنت زائدہ بن اصم (مادر عبد المطلب )۔
عائشہ نے جھلا کر کہا: اپنے فرزند کو ہٹاؤ ، لے جاؤ کہ تم لوگ عناد پرست ہو۔
امام حسین (ع) جنازے کو بقیع کی طرف لے کر چلے گئے ۔ 
جنازے پر تیر بارانی:
محدث قمی نے مناقب ابن شہر آشوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ: جنازہ امام حسن ؑ پرتیر بارانی بھی ہوئی اور دفن کے وقت ستر(70) تیر آپ کے جسد مبارک سے نکالے گئے۔امام حسین (ع) جنازے کو بقیع میں لے گئے اور جدۂ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کر دیا۔
مرثیۂ امام حسین ؑ:
شھیدفوق الجنازتہِ قدشکتُ اکفانہ بالسھامِ
امام حسن ؑایسے شہید ہیں کہ جن کا کفن تیروں کی بارش سے پارہ پارہ ہوگیا۔
امام حسین (ع) نے جنازے کو تابوت میں رکھتے ہوئے یہ اشعار پڑھے :
کیا میں سر میں تیل لگاؤں یا ریش کو عطر سے خوشبو دار کروں ؟ جبکہ میں آپ کے سر کو مٹی میں دیکھ رہا ہوں اور آپ کو کٹی شاخ یا پتے کی طرح دیکھ رہا ہوں۔جب تک کبوتر کی آواز گونجے گی اور شمالی و جنوبی ہوا چلے گی، میں آپ پر روتا رہوں گا۔میرا گریہ طولانی ہے، میرے آنسو رواں ہیں، آپ مجھ سے دور ہیں اور قبر نزدیک ہے۔ جس کامال چھین لیا گیا ہو ، غارت شدہ نہیں ہے بلکہ غارت شدہ وہ ہے کہ اپنے بھائی کو خاک میں دفناتا ہے،
زھرجفا نمود توراآب خوشگوار ازبسکہ تلخ کامی و بیتاب و پرتبی۔
پیاس کی وجہ سےتو اتنی نے چینی و تلخی محسوس کررہا تھا کہ تجھے زہر جفا خوش گوارپانی لگا
قربا ن آں دل و جگر پارہ پارہ است از زھر جانگداز وز دشنام و زخم تیر
تیرا دل و جگر زہر گذاراور تیروں کے زخموں سے پارہ پارہ ہوگئے میں ان پر قربان۔
طشت میں خون جگر:
جنادہ ابن امیہ روایت کرتا ہے کہ جس بیماری میں امام حسن (ع) نے شہادت پائی، میں انکی عیادت کے لیے گیا، میں نے دیکھا کہ آپ کے پاس طشت رکھا ہے، جس میں گلے سے خون کے لوتھڑے گر رہے ہیں، جس میں آپ کے جگر کے ٹکڑے تھے، میں نے عرض کی: اے مولا ! علاج کیوں نہیں کرتے ؟
فرمایہ : اے بندہ خدا موت کا علاج کس چیز سے کروں؟
اس کے بعد میں نے عرض کی: مولا ! مجھے موعظہ فرمایئے۔ فرمایا:
استعد لسفر؛اے جنادہ ! آخرت کے سفر کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور عمر ختم ہونے سے پہلے توشۂ آخرت حاصل کر لو۔ سمجھ لو کہ تم دنیا کی طلب میں ہو اور موت تمہاری طلب میں ہے، کبھی آنے والے کل کا غم آج نہ کرو۔
جنادہ کہتا ہے کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ امام حسین (ع) حجرے میں تشریف لائے، حالانکہ امام حسن کا رنگ زرد ہو گیا ، سانسیں رک رہی گئیں، امام حسین نے خود کو برادر کے بدن پر گرا دیا اور سر آنکھوں کا بوسہ دینے لگے ، تھوڑی دیر آپ کے پاس بیٹھ کر راز کی باتیں کرتے رہے۔
ہرگز کسی دچار محن چون حسن نشد و رشد دچار آنھمہ رنج و محن نشد
کوئی حسن کی طرح رنج و غم سے دوچار نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہوگا تو اتنا صدمہ نہیں پہنچا ہوگا،
شہادت امام حسن (ع) پر معاویہ (لع) کی خوشی:
معاویہ کو جب شہادت امام حسن ع کی خبر ملی تو بہت خوشی ہوا سجدے میں گر کر شکر خدا بجالایا پھر تکبیر کہی۔اس وقت ابن عباس شام میں تھے۔ معاویہ نے انہیں بلایا اور بڑے مسرور انداز میں تعزیت پیش کی، پھر ابن عباس سے پوچھا حسن ابن علی کی عمر کتنی تھی ؟
ابن عباس نے جواب دیا: تمام قریش کے لوگ ان کے سن و سال سے آگاہ ہیں۔ تعجب ہے کہ تم نا واقفیت ظاہر کر رہے ہو۔
معاویہ نے کہا: سنا ہے کہ حسن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ؟
ابن عباس نے کہا: ہر چھوٹا ایک دن بڑا ہوتا ہے اور یہ سمجھ لو کہ ہمارے بچے بھی بوڑھوں کی طرح ہوتے ہیں۔
سچ بتاؤ کہ وفات حسنؑ سے تم اتنے خوش کیوں ہو ؟ خدا کی قسم ان کی موت تمہارے اجل کو ٹالے گی نہیں، نہ ان کی قبر تمہاری قبر کو بھرے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے بعد میری اور تمہاری عمر کس قدر مختصر ہے۔   

فہرست منابع:
قرآن مجید۔
ابن بابویہ ،محمد ابن علی ،صدوق، الامالی، ،‌ بیروت، اعلمی، چاپ پنجم، 1400ق۔
ابن بابويه ،محمد بن على ،‏الأمالي( للصدوق) ،تهران‏:كتابچى ،ششم،1376 ش۔
ابن جوزی۔ سبط، تذکرتہ الخواص۔ مترجم: صفدر حسین۔ لاہور، ناشر: علی پبلی کیشز
احمد مدنی، گلزار، سرت،امام حسن، گنج بخش ۔ لاہور،
اشتہاری، محمد۔ مصائب آل محمد۔ ،مترجم: بیگ نجفی۔ موسیٰ۔ ناشر:لاہور۔عاشق شاہ زیب ۔ طبع۔ 2012ء
اصفہانی، ابوالفرج ، مقاتل الطالبین، بی تا۔
جوادی ، ذیشان حیدر،نقوش خمسہ۔ لاہور۔ ناشر : معراج کمپنی۔ چاپ ۔اول ۔ اشاعت۔ 2014
جوادی، ذیشان حیدر،نقوش عصمت، لاہور:مصباح القرآن،بےچا:2014ء
حرُ، مجاہد حسین،تاریخ اسلام،معراج کمپنی، لاہور۔بے تا۔
الخرائج و الجرائح، راوندي، موسسه امام مهدي، قم، 1409 ق، ج 2، ص 575
شہرآشوب ،ابی جعفر رشید الدین محمد بن علی بن شہر آشوب ، المنالب ۔
طبرسی ، ابی علی الفضل بن حسن ، ا لكشاف، مجمع البیان، روح المعانى، ناشر :دارالمعرفۃ،طبع دوم:1408،1988
فیضی ، قاری ظہور احمد ،حیاۃالامام حسن ۔
قمی ، شیخ عباس ،النور البہیہ ،ناشر:قم جماعہ المدراسین فی الحوزہ العلمیہ بقم، موسسہ النشر اسلامی ،1714ق۔ 1375۔
كلينى ،محمد بن يعقوب ، مصحح: على اكبر غفارى و محمد آخوندى، الكافي ( ط- الإسلامية)، تهران: دار الكتب الإسلامية،‏چهارم،1407 ق۔
مجلسى ، محمد باقر بن محمد نقی ،بحار الانوار ، بیروت:داراحیاء الثراث العربی،چاپ :دوم،1403 ء
مطہری، مرتضی،سیرت آل محمد،مترجم: عابد عسکری،معراج کمپنی ۔ لاہور،اشاعت2014
معتزلی ، ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ، قم ، ایران ، 1304ھ ق
مفید ، محمد ابن محمد ، امالی، مترجم: سید منیر حسین، لاہور، منہاج الصالحین، اشاعت دوم۔ 2007ء۔
مفيد، محمد بن محمد ،الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏،قم: كنگره شيخ مفيد ‏،اول،1413 ق۔
ہمدانی، امیر کبیر سید علی ، مودۃ القربیٰ، مترجم: آخوند تقی، ناشر: باب العلم سکردو ،طبع الاول۔ 2012ء