حضرت امیر کبیر سید علی ھمدانی رح


مختصر حالات زندگی

امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ

تحریر: اعجاز حسین غریبی

حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ علیہ بن شہاب الدین ہمدانی (1314ء تا1384 ) نہ صرف سلسلہ کبرویہ کے ایک عظیم صوفی بزرگ تھے بلکہ عرفانی شاعر ہونے کے ساتھ ایک محقق بھی تھے۔

پیدائش
آپ ؒ 12 رجب المرجب 714 ہجری کو پیر کے دن ہمدان میں پیدا ہوئے اور 786 ہجری میں مانسہرہ کے علاقہ پکھلی میں انتقال فرما گئے اور ختلان میں مدفون ہوئے۔ آپ ؒ ایک بادشاہ کے فرزند ہونے کے باوجود بادشاہت کو ٹھکرا کر تبلیغ اسلام کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ چنانچہ کشمیر، بلتستان سمیت خطے کے کئی علاقوں میں اسلام کا نور پھیلایا، مورخین کے مطابق اس خطے میں امیر کبیرسید علی ہمدانی ؒ ہی پہلے مبلغ اسلام ہیں جن کی تبلیغ کے نتیجے میں اہالیان کشمیر و تبت دائرہ اسلام میںداخل ہوئے۔ امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ کی تشریف آوری کے بعد کشمیر کی ثقافت ہی تبدیل ہو گئی۔سید علی ہمدانیؒ کو شاہ ہمدان (ایران کے ہمدان کے بادشاہ) کے علاوہ امیر کبیر یعنی عظیم قائد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ ؒ نے عقائد،فضائل اہلبیت ؑ اور رموز تصوف کے علاوہ دیگر موضوعات پر چھوٹے چھوٹے رسائل سے لے کر انتہائی ضخیم کتابیں بھی تالیف کیں۔

خاندان
ہمدان کے انتہائی معزز اور مثالی خاندان میں پیدا ہوئے اور آپ ؒ کا سلسلہ نسب امام زین العابدین علیہ السلام سے جاملتا ہے ۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام سیدہ فاطمہ ہے جو سترہویں پشت کے بعد جناب رسول خدا ﷺ سے جاملتا ہے ۔ بعض کے مطابق 12 رجب المرجب 714 بمطابق 12 اکتوبر 1314 ء کو آپؒ کی پیدائش ہوئی جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ 713 ھ میں 12 رجب کو آپ ؒ نے آنکھ کھولی۔ اول الذکر تاریخ پیدائش پر اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے۔ آپ ؒ کا اصل نام علی ہے اور شہرت امیر کبیر ، علی ثانی ، شاہ ہمدان اور میر سید علی ہمدانی کے نام سے ہے ۔ اس کے علاوہ آپ ؒ کے القابات میں قطب زمان، شیخ شیخان ، قطب الاقطاب ، افضل المحققین، اکمل المحقق الہمدانی و دیگر شامل ہیں ۔

تعلیمی زندگی کا آغاز
سید علی ہمدانیؒ کا تعلق ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تھا، آپؒ خود بھی ایک نہایت ذہین اور فطین شخصیت تھے۔ آپ ؒ نے ابتدائی اسلامی اور قرآن پاک کی تعلیم اپنے ماموں حضرت علاء الدولہ سمنانیؒ سے حاصل کی اورایک سال میں قرآن پاک کا مکمل ترجمہ اور تفسیر کا دورہ مکمل کیا۔ حضرت علاء الدولہ سمنانی ؒ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے آپ ؒ کو ابوالبرکات شیخ محمد مزدقانی کے حوالے کیا جہاں سے آپ ؒ نے روحانی فیض حاصل کیا۔

سلسلہ طریقت
آپؒ سلسلہ طریقت کبرویہ سے منسلک تھے اور ابوالمیامین نجم الدین محمد بن محمد مزدقانی ؒ سے روحانی تبلیغ کی اجازت حاصل کی۔ سلسلۂ طریقت کے پیریت کا منصب سنبھالنے کے بعد آپ نے پوری دنیا میں سیاحت شروع کیا ،شیخ محمود مزدقانی کا حکم تھا کہ دنیا کی سیر کرو او رجتنا ہوسکے کسب فیض کرو ۔ اس حکم کی تعمیل کے نتیجے میں جناب امیر کبیر ؒ نے تین دفعہ پیدل بیت اللہ شریف کا حج ادا کیا اور بیس یا اکیس سال مسلسل سفر میں رہے ۔ اس عرصے میں آپ ؒ نے بہت سے اولیاء اللہ سے ملاقاتیں کیں ۔

کشمیر میں ورود
امیر کبیر ؒ اپنے کم و بیش 700 مریدوں اور پیروکاروں کے ہمراہ کشمیر تشریف لائے ۔ اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیسکو کے مطابق جنا ب امیر کبیر سید علی ہمدانی وہ عظیم ہستی تھے جنہوں نے کشمیر کی ثقافت کی کئی بنیادوں کو تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف اسلامی ثقافت کا درجہ دیا بلکہ خطے میں کشمیر کی اقتصادی حالت بھی انتہائی مضبوط کردی ۔ وقت کے بادشاہ امیر تیمور کے مظالم سے بچنے کیلئے آپؒ نے کشمیر کا رخ کیا۔ قبل ازیں اپنے والد گرامی کی بادشاہت کے دوران آپ ؒ نے دو مریدوں میر سید حسن سمنانیؒ اور میر تاج الدین سمنانیؒ کو کشمیر روانہ کرچکے تھے تاکہ وہاں تبلیغ اسلام کیلئے راہ ہموار کی جاسکے۔ دونوں بادشاہوں کے درمیان باہمی تعلقات اور معاہدے کے باعث آپ ؒ اپنے کثیر مریدوں کے ہمراہ کشمیر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ۔ آپ کے دونوں فرستادگان نے آپ ؒ اور دیگر ساتھیوں کا کشمیر میں زبردست استقبال کیا۔ اس دوران کشمیر کی حکمرانی مرزا فیروز تغلق کے پاس تھی ۔

خانقاہوں کی تعمیر
کشمیر میں جناب امیر کبیر ؒ نے ایک نہایت ہی منظم انداز میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ ان کے پیروکاروں نے علاقے کے اہم گزرگاہوں اور مقامات پر مساجد کی تعمیر میں آپؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مشہور مساجد میں دریائے جہلم کے کنارے واقعہ خانقاہ معلی ، درگاہ شاہ ہمدان سری نگر و دیگر شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں جناب امیر کبیر ؒ کے ہاتھوں تعمیر کردہ مساجد کو ’’مسجد حضرت امیر‘‘ مقامی زبان میں اختصار کیساتھ ’’حضامیر ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آپؒ نے ہمیشہ کیلئے کشمیر میں پڑائونہیں ڈالا بلکہ مختلف اور مناسب مواقع پر اس علاقے کا دورہ فرماتے رہے ۔ آپ ؒ نے اپنے تمام مریدین کو مساجد میں ائمہ جمعہ و جماعت کی ذمہ داریاں دے کر وہاں سکونت پذیر کردیا اور خود تمام معاملات کی نگرانی فرماتے رہے ۔ ان کی تعمیر کردہ خانقاہیں فن تعمیر کی شاہکار ہیں ، دیواروں میں لکڑیوں کا استعمال ، کھڑکیوں ، دروازوں اور روشندانوں میں لکڑی پر تزئین و آرائش کا انتہائی حسین فن آٹھویں صدی ہجری میں فن نقش نگاری کے عروج کو ظاہر کرتا ہے ۔ خانقاہوں کو دوسرے الفاظ میں جامع مسجد کہا جاتا ہے جہاں نہ صرف پانچ وقت باجماعت نمازیں ہوتی ہیں بلکہ جمعۃ المبارک کو قریب و دور سے ہزاروں مسلمان جمعہ کے عظیم اجتماع کیلئے جمع ہوجاتے ہیں۔ بلتستان میں امیر کبیر سید علی ہمدانی کی تعمیر کردہ بہت سی خانقاہیں موجود ہیں جہاں مکتب صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے لاکھوں افراد نماز پنجگانہ ، نماز جمعہ، عیدین و دیگر اسلامی تہواروں پر جمع ہوتے ہیں۔خاص کر ایام عزاداری میں انہیں خانقاہوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مجالس ہوتی ہیں ایک خاص بات یہ ہے کہ حضامیر میں عزاداری جس شان و عزت سے ہوتی ہے جو دوسرے جگہوں پر نہیں ہوتا ہے۔

کشمیر میں دوسری بار آمد
آپ ؒ نے پہلی بار کشمیر کا دورہ 774 ہجر ی میں کیا اس وقت کشمیر کے حکمران سلطان شہاب الدین تھے۔ اس دورے میں آپؒ چھ ماہ تبلیغ دین فرماتے رہے ۔ دوسری مرتبہ 781 ھ میں آپؒ کشمیر تشریف لائے جبکہ قطب الدین والی کشمیر تھے۔ اس موقع پر آپؒ نے کم و بیش ایک سال کشمیر میں قیام فرمایا۔ اس دوران آپ نے کشمیر کے قریہ قریہ کا دورہ فرمایا اور لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ 783 ھ میں آپؒ نے لداخ سمیت ترکستان کا بھی سفر کیا۔ تیسری بار 785 ھ میں آپ نے کشمیر کا رخ فرمایا اس بار آپ ؒ کا ارادہ تھا کہ اب مکمل طور پر اس علاقے میں اقامت پذیر ہو جائیںتاہم خدائے ذوالجلال کو کچھ او ر ہی منظور تھا ۔

میر ہمدانی ؒ کا انتقال
چنانچہ علالت کے باعث آپؒ کو واپس ہمدان جانا پڑا۔ واپسی پر جب براستہ پکھلی پہنچے توشاہی مہمانوں کی طرح استقبال کیا گیا ۔ یہیں آپؒ کی بیماری شدت پیداکر گئی اور یہ مرض المرگ ثابت ہوئی ۔ پکھلی میں پانچ دن کی شدید علالت کے بعد آپؒ 6 ذی الحج 786 ھ کو اس دارفانی سے کوچ فرما گئے ۔ آپؒ کے جسد انور کو تاجکستان کے دارالخلافہ دوشنبہ کے نواحی شہر ختلان لایا گیا اور یہیں تدفین عمل میں آئی ۔ آپؒ کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔

پشمینہ سازی کی صنعت کا فروغ
امیر کبیر سید علی ہمدانیؒ نے تصوف اور خرقہ پوشی کو اتنی زیادہ ترجیح دیکر موثر تبلیغ کی کہ علاقے میں پشمینا سازی کو صنعت کا درجہ مل گیا چنانچہ مورخین انہیں کشمیر میں پشمینا سازی کے بانی کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں ۔ اس صنعت کے باعث کشمیر کو چین، منگولیا، امریکا، ہندوستان اور دیگر علاقوں میں اقتصادی قوت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ شاہ ہمدانؒ کے دور میں کشمیر میں پشمینا (اون) سے قالین کی صنعت ، شال بافی ، چادرکی تیاری کو عروج ملا، کیونکہ سالکان راہ طریقت کیلئے آپؒ کی تعلیمات میں سے ایک اون سے تیار کردہ لباس زیب تن کرنا تھی۔ قرب و جوار میں لوگوں کی بڑی تعداد گھروں پر یہ اشیا تیار کرتے تھے بلکہ ایک عرصے تک لباس اسی صنعت کے مرہون منت ثابت ہوا۔ یہ لباس ایک طرف روحانی لباس کی حیثیت رکھتا تھا تو دوسری طرف نہایت ارزاں اور آسان تیاری کے باعث غریبوں کا بہترین انتخاب تھا ساتھ ہی ساتھ کشمیر جیسے سنگلاخ اور انتہائی سرد علاقے میں موسمی ضرورت بھی تھی۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے جناب امیر کبیرسید علی ہمدانی ؒ کو کشمیر میں قالین کی صنعت کا بانی قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ شاہ ہمدان ؒ نے قالین بافی میں کشمیر و تبت کو چھوٹا ایران بنادیا۔
خطہ راآن شاہ دریا آستین داد علم و صنعت وتہذیب و دین
آفرید آن مرد ایران صغیر باہنرہائے عجیب و دل پذیر
(جاوید نامہ)

شاگردان امیرؒ
امیر کبیر ؒ سے سینکڑوں شاگردوں نے کسب فیض کیا ۔ ان میں نورالدین جعفر بدخشیؒ، خواجہ اسحاق ختلانیؒ، شیخ قوام الدین بدخشیؒ ، میر سید حسین سمنانیؒ، میر رکن الدین، سید فخر الدین، قطب امجد سید محمد قریشی،ؒ، سید احمد قریشیؒ، سید محمد عزیز اللہ، سید محمد مرید اور پیر محمد قادری و دیگر شامل ہیں ۔ خواجہ اسحاق ختلانیؒ کو خرقہ اجازت عطا ہوا اور انہوںنے بحیثیت پیر طریقت عنان طریقت سنبھالا۔ یہ سلسلہ ان کے بعد حضرت سید محمد نوربخشؒ سے ہوتے ہوئے موجودہ پیر طریقت صوفیہ امامیہ نوربخشیہ سید محمد شاہ نورانی مدظلہ العالی تک پہنچا ہے اور ان شاء اللہ تا قیام قیامت بلاکسی انقطاع کے جاری و ساری رہے گا۔ ھٰذا حبل اللہ المتین لاینقطع الی یوم الدین
شاہ ہمدانؒ ایک کثیر الجہت ہستی تھے۔ وہ ایک مبلغ تھے تو ساتھ ہی سماجی و فلاحی شخصیت بھی۔ انہوں نے کشمیر میں اسلام شناسی اور تبلیغ دین کا نیا انداز سکھلایا، دین مبین میں داخل ہونے والوں کے ایمان و عقائد کو مضبوط کیا۔ انہوں نے ان کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اسلام کو ایک منظم نظام حیات کے طور پر ثابت کیا۔
آپؒ کے معجزات کے طور پر چٹارگام، چہاردرہ، بٹ گام و دیگر مقامات پر آپ کے دست مبارک سے لگائے گئے چنار کے درخت موجود ہیں جو آپؒ نے 1374 ھ میں لگائے تھے۔

شاہ ہمدان کا مسلک
کسی عارف بزرگ کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا ایک خاص فرقہ سے تعلق تھا۔ ان کے شایان شان نہیں ۔ تاہم ان کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ شاہ ہمدان کا مسلک وہی ہے جو چہاردہ معصومین علیہم السلام کا ہے۔ آپ ؒ تصوف کے صرف اس راستے کو درست مانتے ہیں جس پر چہاردہ معصومین علیہم السلام نے عمل کیا۔ آپ ؒ نے اپنے اشعار میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔
گر طاعت حق جملہ بر آوری بجان بے مہر علی ہیچ قبولت نبود
کیونکہ یہی ہستیاں دین اسلام کے حقیقی نگہبان ہیں اور سالکان راہ طریقت کیلئے چہاردہ معصومین علیہم السلام سے بڑھ کر کوئی مشعل راہ نہیں ہو سکتا۔

تالیفات
حضرت امیر کبیرؒ نے ایک موثر مبلغ کی حیثیت سے سینکڑوں کی تعداد میں عربی اور فارسی زبانوں میں کتابیں، خطوط اور رسالے تالیف کئے۔ جس میں ذخیرہ الملوک، دعوات صوفیہ امامیہ ، رسالہ نوریہ، رسالہ مکتوبات، در معرفت صورت و سیرت انسان، در حقائق توبہ، حل النصوص علی الفصوص، رسالہ در معرفت مذاہب اہل تصوف ، شرح قصیدہ خمریہ فریضیہ عمر ابن فارز ، رسالہ اصطلاحات، علم القیافہ، دہ قاعدہ، کتاب المودۃ القربیٰ، کتاب السبعین فی فضائل امیر المومنین، چہل حدیث ، چہل حدیث فضائل امیر المومنین، منازل السالکین، اوراد فتحیہ، اسرارالنقطہ ،مشارب الاذواق و دیگر شامل ہیں۔