حضرت امام جعفر صادق علیہ سلام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اﷲ تعالیٰ فی کتاب المتین واذ ابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما قال و من ذریتی قال لاینال عہدی الظالمین
۔ سورہ بقرہ
ترجمہ : ۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب اﷲ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا چند کلمات کے ساتھ تو اس امتحان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پورا کردیا تو اﷲ نے فرمایا کہ اے ابراھیم میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والاہوں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ مجھے امامت مل گئی ہے تو جلدی سے ہاتھ اٹھا کر عرض کی کہ اے اﷲ میری ذریت میں سے بھی تو جواب آیا کہ اے ابراہیم ؑ یہ میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ۔ خدا نے یہ فرمایا کہ قیامت تک ظالموں کی نفی فرمادی ہے کہ ظالم امام نہیں بن سکتا ۔ ظلم دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ظلم عظیم اور دو سرا ظلم صغیر ظلم عظیم وہ ہے جو خدا کے ساتھ کیا ہے اﷲ فرماتا ہے۔
لا تشرک باﷲ ان الشرک لظلم عظیم ۔
کہ تو شرک نہ کر شرک بڑا ظلم ہے ۔ سورۂ لقمان
حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کی
واجنبی وبنی ان نعبد الاضام
کہ مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی پرستش سے بچالے پتہ چلا کہ جس نے شرک کیا وہ ظالم ہے اور جو ظالم ہوگا وہ امام نہیں بن سکتا ۔ امام اصطلاح میں پیشوا کو کہتے ہیں اور لغت میں امام اس رسی اور ساحل کو کہتے ہیں جو مستریوں اور معماروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔ وہ دیواریں بناتے وقت اسے لٹکا کردیکھتے رہتے ہیں کہ دیوار سید ھی بن رہی ہے کہ نہیں ؟ صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ امام نبی کریم ؐ کے بعد وصی اور حجت ہوتا ہے اور وہ خاموش کتاب اﷲ ( قرآن ) کی تاویل ٗ شریعت کی حفاظت اور حدود کے قائم کرنے میں امام ناطق ہے ۔ (۱)
اہل تصوف کے نزدیک قطب اور امام دونوں ایک ہے اور یہ جائز نہیں کہ کوئی زمانہ امام اور قطب سے خالی رہے ( نص النصوص ص ۲۷۴)
قطب و امام یا قطب اور معصوم ایسے الفاظ ہیں جو کہ حقیقت میں ایک ہی فرد پر صادق آتا ہے وہ روئے زمین پر خلیفۃ اﷲ ہوتا ہے۔(جامع الاسرار ص ۲۴۱)
امام اس شخص سے عبارت ہے جو نبی کی طرف سے اپنے مانند امت کی ضرورتوں کو حل کرنے کی غرض سے اقدام کرتا ہے ۔ امامت مجموعہ رسالت و خلافت اور خلافت و نبوت کی مکمل حفاظت کا نام ہے ۔ (جامع الاسرار ص ۲۳۳ (
صاحب کتاب اصلاحات تصوف ( فرہنگ نور بخش ) ڈاکٹر جواد نور بخش لکھتے ہیں کہ امام کے پانچ درجات ہیں (۱) امام ادنیٰ (۲) امام اعلیٰ (۳) امام اکبر (۴) امام اعظم (۵) امام مبین ۔
نص النصوص ص ۲۷۲
الحاصل امام اعظم سے مراد غوث محمد مصطفی ؐ امام مبین سے مراد حضرت علی بن ابی طالب ؑامام اکبر سے مراد حضرت امام مہدی ؑہیں ۔شرح اصطلاحات تصوف ج ۲ ص ۲۱
غرضیکہ امامت دین و دنیا میں ریاست عامہ کانام ہے امام مفترض القائمتہ خلیفہ ہے ظاہرا خلیفہ رسول اﷲ اور باطنا خلیفہ اﷲ)(فرہنگ نور بخش ج ۳ ص ۵۰ ۔)
سید العارفین علامتہ المتاخرین سید محمد نور بخش نور اﷲ مرقدہ تحریر فرماتے ہین کہ
و یجب ان تعتقد ان الامامۃ علی نوعین حقیقیۃ و اضافیۃ فالحقیقیۃ الاتصاف بجمیع صفات الامامۃ صوریۃ کانت او معنویۃ الخ– کتاب الاعتقادیہ
یعنی تجھے یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ یقینا امامت کی دو قسمین ہیں (۱) امامت حقیقی (۲) امام اضافی ۔ امامت حقیقی وہ ہے جو امامت کی شرائط اور ارکان کاپوری طرح حامل ہونے کے ساتھ امامت کی تمام صفات صوریہ اور صفات معنویہ سے متصف ہو اور جو ان صفات امامت میں سے بعض صفات سے متصف ہو وہ اسی قدر امام ہے پس اس کی امامت اس لحاظ سے اضافی ہوئی ۔ غوث المتاخرین سید نور بخش علیہ الرحمہ نے اپنے فرزند ارجمند شاہ قاسم فیض بخش قدس اﷲ سرہ کے توسط سے پورے مکتب نور بخشیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا ہے کہ
ولی علی ذکائک وثوق فتامل و اعرف الائمۃ الماضین و الباقین و فزفوزا عظیماً۔ کتاب الاعتقادیہ سید محمد نوربخشؒ
بیٹے مجھے تیری ذہانت پر پورا یقین ہے اس لئے تو خوب سوچ لے اور گزشتہ آئمہ اور باقی ماندہ آئمہ کی اچھی طرح پہچان کر اور بہت بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوجا ۔ یہاں آئمہ ماضین سے مراد حضرت امام علی ؑ سے لے کر حضرت امام حسن عسکری ؑ تک کے آئمہ حقیقی اور حضرت معروف کرخی ؒ سے لے کر حضرت خواجہ اسحاق ختلائی ؒ تک کے آئمہ اضافی ہیں جبکہ آئمہ باقین سے مراد حضرت امام محمد مہدی ؑ امام حقیقی اور خود شاہ سید محمد نور بخش ؒ سے لے کراسی سلسلے میں آنے والے تمام آئمہ اضافی یعنی پیران طریقت جو کہ یدا بید ایک دو سرے کی اجازت سے بغیر کسی انفصال کے آتے ہیں ۔ ڈاکٹر جواد نور بخش نے ’’فرہنگ نور بخش ‘‘ میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس اﷲ سرہ کا فرمان نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
ہر کہ را ارادت این راہ پدید آید و خواہد تا حرقہ پوشید باید کہ از دست پیری پوشید کہ علم شریعت و طریقت و حقیقت نیکو داند و مرید باید کہ وقتی خرقہ پوشد کہ داند کہ بر آن استقامت تواند نمودن بر عنا و رنج و مشقت طریقت و مجاہدہ ریاضت اہل حقیقت صبر تواند کردن و از عہدہ آن خرقہ بہ تمامی تواند بیرون آمدن۔ (اور اد الاحباب یحیی باخرزی ص ۲۷ ۔ ۲۸ ، فرہنگ نور بخش ص ۴۰ ۔ ۴۱)
ترجمہ : ۔ جس کسی کو راہ سلوک سے عقیدت ہوجائے تو اسے چاہئے کہ علم شریعت ٗ طریقت ٗ حقیقت اور معرفت ٗ بہترین انداز سے جاننے والے کسی پیر سے خرقہ پہن لے مرید اس وقت خرقہ پہن لے کہ اسے سلوک کی تمام تکالیف اور مشقتیں برداشت کرسکنے کا یقین ہو اور اس ذمہ داری کو پوری کرنے کاپکا علم ہو۔
روحانی روابط میں ہم اقرار کرتے ہیں
لانھم ائمتنا فی الدین الخ
یعنی یہ ہمارے دین کے آئمہ اضافی کی فضیلت ان کی آئمہ حقیقی کی اتباع اور آئمہ حقیقی کی فضیلت اتباع رسول اﷲ ؐ کی وجہ سے ہے ۔ دعوات صوفیہ امامیہ
ولادت امام جعفر صادق ؑ
۸۳ ھ روز دوشنبہ یا جمعہ ربیع الاول کی سترہ وہ مبارک تاریخ تھی جس میں سردار اولین و آخرین سید المرسلین عالم وجود میں آئے اسی تاریخ حضرت محمد ؐ کے گھر میں صادق آل محمد ؐ گوہر تاج عارفین بن کر وکل شیء فی امام مبین بن کر ۔ مظہر انوار رب العالمین بن کر اس طرح آیا کہ ہدایت ساتھ آئی صراط المستقیم نظر آئی امامت نے وقت پایا فریضہ امامت پایا ۔ تبلیغ کے دریا بہادیئے اسلامی دنیا سے تشگان دین جوق در جوق آئے صادق آل محمد ؐ درسگاہ میں بیک وقت چار ہزار طالبان دین کا مجمع ہوگیا درس و تدریس کا آفتاب چمکا دین حقہ کے انوار گوشہ گوشہ میں پہنچے سعید شاگردوں نے ایمائے امام سے تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا ۔ علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک دن امام ابو حنیفہ ؒ خدمت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام میں پہنچے ۔ امام علیہ السلام بڑ ی محبت سے پیش آئے اور فرمایا نعمان سنا ہے کہ تم دین خدا میں اپنے قیاس سے کام لیتے ہو خدا کے عذاب سے ڈرو ۔ دیکھو آدم علیہ السلام کے معاملہ میں جس نے قیاس سے کام لیا اس کا کیا حشر ہوا؟ محمد ابن طلحہ شافعی اپنی کتاب مطالب السئوال میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سادات کے اعلیٰ ترین فرد زیور علم سے آراستہ و پیراستہ تھے ۔ معنی قرآن کے سر چشمہ حکمت کے بحر ذخار اور علمی و روحانی عجائب و کمالات کے مرکز تھے۔ایک روز ایک شخص نے بولا خدا نے قرآن میں کہا ہے ۔
ثم لتسئلون یومئذ عن النعیم۔
کہ لوگوں سے قیامت کے دن نعمتوں کی باز پرس کی جائے گی ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اس آیت میں نعمت سے مراد کھانے نہیں بلکہ نعمت سے مطلب ہم اہل بیت ؑ کی محبت و مودت ہے ۔ قیامت کے دن ہماری محبت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک حضرت امام جعفر صادق کی شاگرد میں اور ان شاگردوں کے شاگرد امام حنبل ؒ اور شافعی ہیں۔ امام حنیفہ کہتے ہیں ما رایت افقہ من جعفر بن محمد میں نے امام جعفر سے بڑھ کرکوئی فقیہ نہیں دیکھا ہے ۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ
لولا السنتان لھلک النعمان
اگر دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجا تا ۔ امام مالک فرماتے ہیں
مارا عین والا تسمیعت خطر علی قلب بشر افضل من جعفر بن محمد
نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں خیال آیا کہ جعفر بن محمد ؐ سے بھی کوئی افضل ہوسکتا ہے ۔ معلم کبیر امام جعفر صادق ؑ کے دور میں تعلیمات اہلبیت ؑ از سر نو پروان چڑھیں اور امت مسلمہ ایک بار پھر جادہ مستقیم پر گامزن ہوئی۔
شہادت حضرت امام جعفر صادق ؑ
امام جعفر صادق علیہ سلام کے زمانے میں عزاء سید شہداء نے عروج پایایوں تو عزائے سید الشہدا ؑ کا سلسلہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے دمشق ہی میں شروع کردیا تھا مدینہ روانگی سے قبل دمشق میں ایک مکان خالی کرایا گیا جس میں سید الشہدا ؑ کا بیٹا ذاکر ہوتا او اہل حرم ؑ سامعین کس طرح ذاکری کرتے اور کیا بیان فرماتے ہونگے واقعات و مصائب تو سب کے پیش نظر تھے ان کو کیا سنانا تھاہاں وا محمد اوا علیا و اسید ا کی آواز یں بلند ہوتی ہونگی ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں مجالس کا خاص اہتمام ہوا ۔ صادق آ ل محمد ؐ خوود ذکر سید شہدا کرتے اصحاب اور شاگردوں کا کثیر مجمع ہوتا امام بھی روتے مجمع بھی زار و قطار روو رہاتھا ۔ ایک صحابی منبر کے قریب بیٹھے ہوئے تھے رخساروں پر آنسوؤں کا دریا بہہ رہاتھا امام ؑ ان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کہ تم مصائب سید الشہدا ؑ سن رہے ہو اور روتے نہیں ؟ صحابی نے گردن اٹھائی اور عرض کی مولایہ کیسے ممکن ہے کہ سید الشہدا ؑ کے مصائب کا ذکر ہو اور غلام نہ روئیں فرمایا اس طرح مت روؤ ایسا روؤ جس طرح میری دادی فاطمہ ؑ چنچیں مار کر روئی تھیں ۔ بالا خر دشمن دین منصور خلیفہ نے ۲۵ ماہ شوال یا ۱۵ ماہ رجب کو عامل مدینہ کے ذریعہ امام جعفر صادق ؑ کو زہر سے شہید کرادیا اور بروایت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بتاریخ تیمہ رجب یا رمضان ۱۴۸ ھ سن مبارک ۶۳ یا ۶۵ میں منصور دوانقی خلیفہ بنی عباس کے زہر سے بدرجہ شہادت فائز ہوئے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قریب شہادت ایک دن اپنے تمام خویش و اقارب کو جمع کیا اور فرمایا کہ
ان شفا عتا لا ینال مستخفا بالصلوۃ ۔
ترجمہ: نماز کو حقیر جاننے والے کو ہماری شفاعت نہیں ہوگی۔
دیگر فرمایا کہ میرے بعد میرا بیٹا موسیٰ کاظم علیہ السلام میرا وصی اور امام جہاں ہے حضرت امام موسیٰ کاظم فرماتے ہیں کہ میں نے غسل اور کفن دیا اور نماز کے بعد نزد قبور پدر و جدش جنت البقیع میں ایک سنگ مرمر پیدا ہوا اس پر لکھا ہوا تھا کہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم الحمدﷲ رب العالمین ھذا قبر فاطمہ بنت محمد رسول اﷲ ؐ و قبر الحسن ؑ و علی بن الحسین ؑ و محمد بن علی ؑ و جعفر بن محمد ؑ صلواۃ اﷲ اجمعین ۔
اسی جگہ دفن ہوئے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد کی تعداد دس بتائی جاتی ہے ۔ اسماعیل ؑ ٗ موسی ؑ اور عباس ؑ و علی ؑ و فاطمہ ؑ و غیرہ ۔ اہل امامیہ صوفیہ نور بخشیہ ۱۵ رمضان کو چار رکعات نماز زیارت امام جعفر صادق ؑ پڑھتے ہیں ۔ نیت یہ ہے
اصلی صلواۃ زیارت امام جعفر صادق رکعتین قربۃ الی اﷲ – دعوات صوفیہ امامیہ