حضرت امام موسٰی کا ظم علیہ سلام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اﷲ تعالیٰ واجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبر و او کان بایتنا یوقنون

پ ۲۱ س سجدہ
ترجمہ : ۔ اﷲ تعالیٰ اپنی کتاب مبین میں فرماتے ہیں کہ ہم نے ان میں سے امام بنائے جنہوں نے مصائب پر صبر کیا اور ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہماری آیتوں کادل سے یقین رکھتے تھے ۔
مختصر سی آیت نے چار چیزوں پر روشنی ڈالی ہے سب سے پہلے ’’ جعلنا‘‘ہے یعنی ہم نے قرار دیا جہاں خلافت و امامت کا ذکر ہوا ہے قدرت نے تقرری کی نسبت اپنی ہی طرف دی ہے ۔ سب سے پہلے خلافت کو یاد کیجئے وہاں بھی یہی کہا گیا
انی جاعل فی الارض خلیفہ
اعتراض ہر دو رہیں ہوئے وہاں بھی ہوا مگر یہ کہہ کر اعتراض کو ٹھکرا دیا کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں تم نہیں جانتے یعنی خلافت اور امامت کے لئے عصمت شرط ہے اور کون معصوم ہے اس کو ہمارے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ معلوم ہوا اعتراض کرنے والا معصوم نہ تھا ورنہ اعتراض ہی نہ کرتا اور خدا کے حکم کو تسلیم کرلیتا دو سری چیز آیت میں یھدون بامرنا ہے کہ وہ آئمہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں یہ نہ سمجھنا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اپنی طرف سے کہتے ہیں نہیں زبان ان کی ہوتی ہے اور حکم ہمارا لا ینطق عن الھوی تیسری چیز لما صبروا ہے ۔ یعنی صبر کرتے ہیں ۔ راہ ہدایت میں جب مصائب کی آندھیاں چلتی ہیں تو وہ ثابت قدم رہتے ہیں ۔ چو تھی چیز و کانوا بایتنا یوقنون ہے کہ ان کو ہماری آیات پر کامل یقین ہے جو انکو ثابت قدم بنائے ہوئے ہیں ۔ امام کے لئے ان چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
۱۔ منصوص من اﷲ ہونا ۲۔ حکم خدا سے ہدایت کرنا ۳۔ مصائب میں صبر کرنا اور ۵۔ آیات الہیہ پر ایقان ہونا ۔
مندرجہ بالا تمام اوصاف حضرت امام علی علیہ السلام سے آخر زماں حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام تک کے آئمہ میں پائے جاتے ہیں کہ آدم الاولیاء مطلقاً علی بن ابی طالب ؑ ہے اور خاتم الاولیاء بہ مقید مہدی آخر زماں ہے ۔(جامع الاسرار ص ۳۸۹، نص النصوص ص ۱۸۳، شرح گلشن راز ص ۲۱۵، اصطلاحات تصوف ج۲ ص ۱۳۷)
شاہ سید محمد نور بخش قدس اﷲ سرہ نے بھی امامت کی صفت اس طرح بیان کی ہے کہ واصل الامامۃ شجاعت اور قریشی ہونا الخ کیونکہ فرمان رسول مقبول ؐ ہے الائمۃ من قریش یعنی آئمہ کرام قبیلہ قریش سے ہونگے ۔ اصول اعتقادیہ ص ۴۹
و صفاتھا الصوریۃ السیادۃ المنصوصۃ و الفاطمیۃ الخ
اور قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہی کہ
ان مسئلۃ الامامۃ من اعظم المسائل من اصول الدین الذی مخالفتھا توجب الکفر
یعنی بے شک مسئلہ امامت اصول دین میں سے ایک عظیم ترین مسئلہ ہے اس کی مخالفت کفر واجب کرتی ہے ۔(کتاب الصلۃ بین التصوف و التشیع ص ۲۳۸)
اور جامع الاسرار ص ۷۱ میں مرقوم ہیں کہ امام علی علیہ السلام صاحب اسم اعظم تھا ۔ حضرت سلمان فارسی ؓ سے مروی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شان میں رسول مقبول ؐ نے فرمایا ہے کہ
الحسن و الحسین امامان قاما او قعد اما فی الحسین ھذا امام و اخو امام ابن امام ابوا الائمہ۔ مجالس المومنین شوشتری ص ۲۷۳ نص النصوص ص علل الشرائع ص ۲۰۰
ترجمہ: جناب حسن ؑ اور حسین ؑ دونوں امام ہیں چاہے وہ قیام کرے یا بیٹھے رہے اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ خود امام امام کابھائی امام کا بیٹا اور آئمہ کے باپ ہیں
ولادت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
آنحضرت دو روز یکشنبہ ہفتم ماہ صفر ۱۲۸ ہجری بمطابق ۷۴۹ ء ۱۰ نومبر در مقام ابوا ، ما بین مکہ و مدینہ ہے ۔ (انوار نعمانیہ ص ۱۲۶ اعلام الوری ص ۱۷۱ )
صفر کی سات تاریخ تھی کہ سید الصابرین کے گھر میں ساتواں صابر آیا ۔ باب مدینۃ العلم کے گھر میں باب قضاء الحوائج آیا صادق آل محمد ؐ نے ساتویں صادق کے کان میں اذان کہی اور ساتوں طبق روشن ہوگئے ۔ علم نے کہا عالم آیا ۔ غصہ نے کہا کاظم آیا محمد ابن طلحہ شافعی مطالب السئول ص ۳۰۸ اور علامہ ابن حجر مکی صواعق محرقہ ص ۱۲۱ پر لکھتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنے والد کے صحیح وارث ٗ امام حقیقی اور فقیہہ کامل تھے عبادت اور کرامت میں مشہور تھے رکوع اور سجود میں راتیںگزارتے اور دن روزوں میں بہت سے حج پیادہ کئے امام کے بچپن کا واقعہ ابو حنیفہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن چند مسائل دریافت کرنے کی غرض سے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے عصمت کدہ میں حاضر ہوا۔ معلوم ہوا امام علیہ السلام آرام فرما رہے ہیں۔ انتظار میں بیٹھ گیا کہ اتنے میں امام کے صاحبزادے موسیٰ کاظم علیہ السلام جن کی عمر ابھی پانچ چھ سال کی تھی باہر تشریف لائے میں نے انہیںسلام کیا اور کہا فرزند رسول ؑ انسان کے افعال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ آیا ان کا فاعل انسان ہے یا خدا ۔ آنحضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے سنا اور آپ دونوں زانو ہو کربیٹھ گئے اور فرمایا ابو حنیفہ اپنے سوال کا جواب سنو ۔ یاد بھی کرلو اور اس پر عمل بھی کرنا ۔ دیکھو بندوں کے اعمال تین صورتوں سے خالی نہیں یا ان کو خدا کرتا ہے اور بندے بالکل مجبور ہیں ۔ (۲) یا خدا اور بندے دونوں مل کرکرتے ہیں ۔ (۳) یا صرف بندے کرتے ہیں اور خدا ان افعال کے فاعل صرف خدا ہے تو یہ کیسا خدا ہے کہ با وجود عادل ہونے کے اپنے بندوں کو ان اعمال کی سزادے گا جن کو انہوں نے نہیں کیا بلکہ خود خدا نے کیا ہے اور اگر دو سری صورت ہے تب بھی یہ کیسا خدا ہے کہ افعال میں خدا اور بندے دونوں شریک ہیں اور سزا صرف بندوں کو دی جائے گی ۔ حالانکہ وہ خود شریک ہے معلوم ہوا کہ یہ دونوں صورتیں محال ہیں ۔ اب تیسری صورت کے علاوہ کوئی اور صورت باقی نہیں رہی اور وہ یہ کہ بندے خود اپنے افعال کے فاعل ہیں اور ایک شخص نے پوچھا اچھا یہ فرمایئے کہ انسان مجبور یا مختار تو آپ ؑ نے فرمایا کھڑے ہو جاؤوہ کھڑا ہوگیا فرمایا ایک پیر زمین سے بلند کرلو ٗ کرلیا فرمایا دو سرا بھی اٹھا لو۔ اب وہ پریشان ہوا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں ۔ فرمایا پھر کچھ چیزیں تمہارے اختیار میں ہیں کچھ چیزیں تمہارے اختیار میں نہیں ہیں ۔
غوث المتاخرین سید محمد نور بخش قدس اﷲ سرہ نے کتاب الاعتقادیہ میں نسبت خیرو شرکا مسئلہ کے عنوان سے اس بارے میں بڑی مدلل بحث بہت اچھوتے انداز میں کی ہے امت کے در میان پائے جانے والے اختلافات کو رفع فرماتے ہوئے آپ رقمطراز ہیں کہ کوئی کہتا ہے کہ خیر و شر دونوں بندے کی اپنی طرف سے ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہ دونوں اﷲ کی طرف سے بھی ہے اور بندے کی طرف سے بھی اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سب لفظی اختلافات ہیں اور حقیقت میں ایک ہیں۔
شہادت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
یعقوب بن داؤد سے مروی ہے کہ جب ہارون رشید بعد حج برائے زیارت مدینہ آیا جب روضہ مبارک پر آیا تو قبر رسول اﷲ ؐ کی طرف رخ کرکے امام ؑ کو اس طرح سلام کیا السلام علیک یا بن عم ۔ امام ؑ نے سنا اور قبر رسول اﷲ ؐ کی طرف رخ کرکے یوں سلام کیا ۔ السلام علیک یا ابت یہ سن کرہارون رشید کا رنگ فق پڑگیا اور اس قدر ذلت محسوس کی کہ امام علیہ السلام کو حالت نماز ہی میں گرفتار کرا کر بصرہ کے زندان میں قید کردیا ۔ ایک سال کے بعد حاکم بصرہ کو لکھا کہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قتل کردیا جائے حاکم بصرہ نے لکھا کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکتا تو اس ملعون نے امام کو بصرہ سے منتقل کرکے بغداد کے زندان میں بلالیا اور تازیست و ہیں قید رہے ایک روز محبان امام ؑ میں سے ایک شخص آیا اور قید خانہ میں محافظ سے اجازت چاہی کہ امام ؑ کی زیارت سے مشرف ہو ۔ محافظ نے انکار کردیا اس نے کافی رقم پیش کی تو اس نے کہا قید خانہ کے پشت پر ایک سوراخ ہے اس میں سے تم امام علیہ السلام سے ملاقات کرسکتے ہو اس نے دیکھا کہ ایک گوشہ میں سفید کپڑاپڑا ہے اور کوئی نظر نہ آیا تھوڑی دیر بعد کپڑے میں حرکت ہوئی اور یہ آواز سنائی دی جیسے کوئی کہہ رہا ہے پالنے والا تیرا میں کیسے شکر ادا کروں کہ تو نے اپنی عبادت کے واسطے اس قدر اطمینان اور سکون کی تنہائی عطا فرمائی پھر امام علیہ السلام نے سجدہ سے سراٹھایا ۔ صحابی سلام احترام بجا لایا اور رو کر کہا آقا آپ ؑ کے پیروکار سب مشتاق زیارت ہیں کب زیارت ہوگی ؟ فرمایا ان سب سے کہہ دو کہ پرسوں بغداد کے پل پر آجائیں میں بھی وہاں پہنچ جاؤں گا ۔ صحابی خوشی خوشی واپس ہوا یہ خبر تمام مؤمنین میں گشت کرگئی۔ زہر اپنا اثر کرتا جارہا تھا امام ؑ نے مسیب ؓ جو پاسبانوں میں ایک دوستدار اہلبیت ؑ تھا فرمایا اے مسیب ؓ میں مدینہ جارہاہوں تا کہ جد بزرگوار سے آخری رخصت چاہوں اور اپنے فرزند حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو جو میرے بعد امام امت ہونگے تبرکات رسالت اور اسرار امامت سپرد کردوں ۔
مسیب ؓ پریشان ہوگئے آقا یہ کیسے ممکن ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا مسیب ؓ تم بڑے پکے اعتقاد والے ہوا پنے یقین کو خدائے قادر اور ہمارے بارے میں قوی کردو ۔ مسیب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہا امام کے لبھائے مبارک ہلے اور آپ نظروں سے غائب ہوگئے ۔ زنجیریں پڑی رہ گئیں امام علیہ السلام نے مدینہ میں قبر رسول اﷲ ؐ پر کیا کہا ہوگا ؟ زنجیروں سے زخمی پیردکھائے ہونگے ؟ اور امام رضا علیہ السلام کو منصب امامت پر مقرر کیا وصیت کی ۔ مسیب ؓ نے پھر نظر ڈالی تو امام علیہ السلام اپنی جگہ موجود تھے ۔ زنجیریں پیروں کا بوسہ لے رہی تھیں ۔ مجھ سے فرمایا مسیب ؓ میری روح جب میرے جسم سے مفارقت کرجائے تو پریشان نہ ہونا میرا فرزند حضرت امام علی رضا علیہ السلام مجھے غسل دے گا اور وہی نماز جنازہ پڑھائے گا ۔ مشہور تاریخ شہادت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق علیہ السلام ۵۴ سال کی عمر میں اور ۳۵ سال مدت امامت میں ۲۵ ماہ رجب بروز جمعہ ۱۸۳ ھ بغداد کے قید خانہ ہی میں خلیفہ وقت کی زہر سے شہید ہوئے ۔ بغداد کے پل پر ہزاروں کا مجمع تھا ۔ ہر شخص خوش تھا کہ امام علیہ السلام نے آج کا وعدہ زیارت فرمایا ہے ۔ آقا کی آج زیارت ہوگی کہ دیکھا ایک جنازہ آرہا ہے آگے آگے ایک منادی ندادے رہاتھا کہ مسلمانوں کے امام ؑ نے قید خانہ میں شہادت پائی ۔ یہ ان کا جنازہ ہے مشتاقان زیارت سر پیٹ لیا مولا یہ کیسا وعدہ فرمایا تھا نالہ و فریاد کی صدائیں عرش سے ٹکرارہی تھیں سربرہنہ ہزاروں کا مجمع گریبان چاک ماتم کنان جنازے کاندھوں پر رکھے کاظمین کی طرف جارہے تھے اسیر امام کا جنازہ اس شان سے نکلا کہ لکھا ہے ڈھائی ہزار درھم صرف خوشبو میں صرف ہوئے ۔ کاش یہ مجمع کربلا میں بھی ہو تا تو امام مظلوم ؑ کی لاش بے گور و کفن نہ پڑی رہتی کم سے کم لاش اطہر پر گھوڑے ہی نہ دو ڑتے ۔ زینب ؑ کے سرے چادر ہی نہ چھینتی ۔ حضرت سکینہ ؑ کے نام آنکھ خون کے آنسونہ روتے جناب سید سجاد ؑ بستہ طوق و زنجیر نہ ہوتے مگر افسوس بر غریبی و مظلومی حسین علیہ السلام ۔ ؎
تکفین و تدفین ہوسکا نہ جنازہ اٹھا
تیری غریبی پہ قربان شہید کرب و بلاؑ
بعد تجہیز و تکفین تدفین حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور اہلبیت عصمت ؑ نے مراسم ماتم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اداو قیام کیا ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں علی بن موسی ؑ ٗ ابراہیم ؑ، عباس ؑ، قاسم ؑ ٗ فاطمہ ؑ ٗ رقیہ ؑ اور ام کلثوم ؑ و غیرہ ۱۳ کی تعداد تاریخ کی کتابوں میں آتی ہے۔