حضرت شمس الدین عراقی رح


تعارف پیر طریقت صوفیہ امامیہ نوربخشیہ حضرت میر شمس الدین عراقی رحمۃاللہ علیہ
پیدائش اور تعلیم و تربیت :۔میر شمس الدین ۸۳۳ھ کو ایران کے علا قے اراک میں پیدا ہو ئے آپ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے میر شمس الدین عراقی نے اپنی ابتدا ئی زندگی کے کچھ ایام میر سید محمد نوربخش کی خدمت میں گزارا نوربخش کی وفات کے بعد انہوں نے آپ کے نامور خلفا اور مریدوں سے استفادہ حاصل کیا جن میں شیخ محمود بحر آبادی،حسین کو کئی،شیخ محمود سفلی،برہان الدین بغدادی،شمس الدین لا ہیجی،اور شاہ قاسم فیض بخش شامل ہیں (تحفتہ الاحباب )
عراقی نے اپنی زندگی کے بیشتر حصے ان کی صحبت اور تربیت میں بسر کئے تھے جب کی بدولت آپ کمالات صوری اور کما لات معنوی سے آراستہ تھے علوم ظاہری کے بارے میں کو ئی معلومات فراہم نہیں کی ہیں لیکن تحفتہ الاحباب میں کشمیر کے شیخ الاسلام شیخ شہاب الدین ہندی سے پتہ چلتا ہے کہ ظاہری علوم پر بھی آپ کو پوری طرح دسترس حاصل تھی تاہم آپ کی کو ئی تصنیف نہیں ہے تحفتہ الاحباب میں آپ کی تمام سرگرمیوں میں اقوال و فرامین کا ذکر موجود ہیں یقینی بات ہے کہ آپ نے کو ئی کتاب تصنیف نہیں کی ۔
کلمتہ الثنا ئ:۔دوسرے اولیا کی طرح میر شمس الدین بہت بڑے فضل و کمال کے مالک تھے ان کی روحانی قدرو منزلت بہت زیادہ تھی ۔
ایں سعادت بزو ربا زو نیست۔تانہ بخشد خدائے بخشندہ
شاہ قاسم فیض بخش نے عراقی کو کشمیر بھیجتے وقت خط ارشاد میں فرمایا:
جناب قدوۃ الاولشائخ العظام،زبدۃ الاولیا ،الکرم ،مرشد السالکین،ہادی المستر شدین،شمس الدین ادام اللہ برکات و کمالات،(تحفتہ الاحباب ص۳۳۴)
سلطان فتح شاہ نے خانقاہ شاہ ہمدان کے تولیت نامے میںلکھا :۔
ارشد مآب،علایت اکتساب،قطب المحققین،قدوۃ المرشدین،زبدہ ارباب الکشف والیقین،المتوکل الملک المعین،المختص بعنایات اللہ الباقی،شمس الدین محمد عراقی(تحفتہ الاحباب ص۳۷۰)
جان محمد قدسی نے لکھا :۔
کیست دریں گنبد فیروزہ فام۔قطب زماں شمس فلک احترام
محرم راز حریم کبریا ۔محی رسم و درویش اولیاء
عارف حق شیخ والا یت پناہ ۔خضر زماں قطب خدارا رھنما است
شیخ محمد کی ولی خدا است ۔برھمہ خلق خدا خدارا رھنما است
باطن او مطلع انوار حق ۔سینہ او مخزن اسرار حق
ملا محمد علی کشمیری :۔مطہر آثار معارف الہی،منبع شر حقائق نامتناہی، مخصوص عنایات حضرت ملک الہاقی،شمس االملت والدین،شیخ محمد العراقی،(تحفتہ الاحباب ص۲۱۱)
سلطان حسن شاہ والی کشمیر کے وزیر اور ندیم خاص حاجی شمس سلطان حسن شاہ کو عراقی کے بارے میں یوں رپورٹ دی ’’ایں مرد عزیز کہ مرد ماں ایلچی گمان می کرد ند از جملہ اولیا ست‘‘یہ عزیز القدر شخص جسے لوگ ایک سفیر سمجھتے ہیں وہ تو اولیا اللہ میں سے ہیں (تحفتہ الاحباب ص۱۵۹)
کشمیر میں عراقی کی سر گرمیاں :۔میر شمس الدین عراقی ۸۸۸؁ء میں شاہ قاسم فیض بخش کی ہدایت پر سلطان حسین والی خراسان کو بعض ادویا ت لا نے کی غرض سے کشمیر کا دورہ کیا اور مسلسل آٹھ سال تک آپ کشمیر ہی میں رہے اور اس وقت خراسان گئے جب سلطان کا انتقال ہوگیا تھا واپسی پر آپ شاہ قاسم فیض بخش کے پاس بار سال رہ کر دربارہ کشمیر آئے اور باقی ماندہ زندگی کشمیر میں ہی بسر کی اسی دوران آپ نے کشمیر میں نوربخشیہ خانقاہ زڈی بل تعمیر کی جو کشمیر کی سب سے بڑی خانقاہ تھی اس کے علاوہ متعدد بت توڑے بیسیوں بت خانوں کو گرایا اور وہاں مسجد تعمیر کی ۔آپ کے ہاتھ پر بیس ہزار لوگ مسلمان ہو ئے تھے سلطان زین لعا بدین کے زمانے میں مر تد ہو نے والوں کو با لجبر دائرہ اسلام میں لا یا ۔غرض آپ نے کشمیر میں اپنی زندگی جوش و خراوش سے گزاری ہزاروں لوگوں کو روحانی تربیت دے کر درجہ کمال تک پہنچایا آپ خانقاہ زڈی بل کی تعمیر کے لئے گئے بعد میں وہاں مستقل رہنے لگے وہاں اوراد فتحیہ اور اوراد عصریہ پڑھنے والوںکی رہبری کیا کرتے تھے لوگوں سے ملتے تھے اور درویشوں کو تربیت دیتے تھے چند ماہ کے لئے آپ کشمیر سے ملک بد ر ہو کر بلتستان پہنچے ان چند مہینوں میں آپ نے بلتستان کے علاقوں کا دورہ کیا اور اسلام کو استحکام پہنچایا بلتستان سے کشمیر جا تے وقت یبگو بہرام والی خپلو کی استدعا پر اپنے ایک مرید خاص ملک حیدر کو بلتستان چھوڑ گیا تھا جس کی اولا د اب بھی خپلو خاص اور مختلف علاقوں میں آباد ہیں اور اخوند یعنی لوگوں کو دینی معاملات کی رہنما ئی کر تے ہیں ۔
خلیفہ فیض بخش :۔میر شمس الدین عراقی شاہ قاسم فیض بخش بن سید محمد نوربخش کے خلیفہ اور مرید تھے آپ پہلی بار کشمیر سلطان حسین والی کراسان کے لئے ادویات لینے آئے تھے لیکن اس سفر میںآپ نے شاندار سفارت فرائض کے ساتھ ساتھ روحانی اثر ونفوذ کو بھی بڑھایا اور کشمیر اور بلتستان میں سلسلہ نوربخشیہ کے حلقہ احباب کو پھیلا یا ۔مریدوں کے حلقے قائم کئے خراسان واپسی پر وہاں سے میر شاہ فیض بخش نے دوبارہ کشمیر بھیجا اس دفعہ آپ کو با قاعدہ اپنا خلیفہ مقرر کیا اور خط ارشاد عطا فرمایا جسے ذیل میں تحریرمیںلا یا جا تا ہے ۔
’’ واصحاب اوحباب وسائر ارباب الباب احسن اللہ تعالیٰ عواقبھم والحج مقاصد ھم دعوات درویشانہ قبول فرما ئیند ۔بعد اعلام میرو کہ درین وقت جناب قدوۃ المشائخ العظام زبدۃ الاولیا الکرام،مرشد السالکین مھادی المستر شدین شیخ شمس الدین محمد عراقی ادام اللہ برکات کمالاتہ رابجانب کشمیر جھت توبہ تائبان و ارشد طالبان سالکان و تلقین آداب مشائخ طریقت و تعلیم قواعد طریقہ اہل معرفت فرستا دیم روز عید الاضحیٰ۹۰۱؁۔(تحفتہ الاحباب ص ۱۵۵،۲۵۷)
تاریخ کی کتابوں میں اور آج کل بھی اکثر لکھاری میر شمس الدین عراقی کو سیعہ اثنا عشریہ کا مبلغ قرار دیتے ہیں جو کی درست نہیں ہے۔ مرزا حیدر دوغلت نے جب کشمیر میں فرقہ ورانہ بنیاد پر نسل کشی شروع کی تو اس نے کبھی میر شمس الدین کو نوربخشی کبھی شیعہ قرار دیا جبکہ اس نے ہندوستانی علماء سے جب فتوای لیا تو نوربخشیوں کو مرتد قرا ر دے کر قتل عام شروع کیے انہی میں میر شمس الدین کا بیٹا سید دانیال بھی تھا جن کو نوربخشی ہونے کے جرم میں سکردو سے بلوا کر سری نگر میں شہید کیا، میر شمس الدین عراقی نوربخشی سلسلے کا ہی پیر تھا جو کہ شاہ قاسم فیض بخش کا مرید تھا-