ائمہ جہاد کیلئے شرائط


جہاد اکبر و اصغر کیلئے امام کی مشترکہ شرائط

ان دونوں میں سے ہرایک کے لئے ایک ایسے امام کا ہونا ضروری ہے جو مرد ہو ، آزاد ہو ، بالغ ہو عقلمند ہو ،مسلمان ہو ، عدل والا ہو ،علم والاہو بہادرہو ،سخاوت کا حامل ہو ،تقویٰ کا حامل ہو ، قریشی بلکہ ہاشمی ہو بلکہ علوی ہو بلکہ فاطمی ہو ۔جہا د اصغر کے لئے انہی صفات کا امام کافی ہے۔

جہاد اکبر کیلئے امام کی اضافی خصوصیات
جہاد اکبر کے لئے امام ایسا ہو جو ولایت کے تمام مقامات مثلاً دل کے سات مختلف اطوار(۱) ، غیب کے مختلف انوار ، مکاشفات ، مشاہدات اور معائنات ،(۲) اللہ کے آثار و افعال و صفات اورذات کی تجلیات میں ولایت کے اعلیٰ درجے پر ہو۔ عالم لاہوت میں فناء ہونیوالا ہو، عالم جبروت میں باقی رہنے والاہو، مظہریت کلیہ سے متصف ہو۔ معرفت والاہو،موحد ہو ، اشیا ء کی حقیقتوں میں تحقیق کرنیوالاہو، خود معائنہ کرنیوالاہو ،سنی سنائی باتوں پر یقین کرنیوالانہ ہو۔ سالکین کی خدمت ،عزلت ،خلوت نشینی، اچھی صحبت اور ان کے حال کے مطابق سیاست و ریاضت کے مختلف طریقوں سے مکمل کرنیوالاہو، ان کے اخلاق کیلئے حکیم ہو، ان کیلئے جسمانی طور پر طبیب ہو، شریعت میں مجتہد ،طریقت میں مجاہد ہو ،علم الیقین ،عین الیقین اورحق الیقین کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے والاہو۔حقیقت کے اصولوں، فروعات، کلیات اورجزئیات پر یقین رکھنے والاہو، سالکین کے نفوس کے تزکیہ کے لئے کوشش کرنے والاہو، ان کے دلوں کوصفابخشنے میں مدد کرنیوالاہو۔

امام کیلئے کم از کم صفات
اگر ان صفات کا حامل امام نہ ملے تو (کم ازکم) ضروری ہے کہ امام پرہیزگار ہو،ریاضت گزار ہو،صاحب کشف ہو، ملکوت میں سیر کرنے والاہو۔ جبروت میںاڑنے والاہو فناء فی اللہ ہو ،بقاء باللہ ہو ،آداب طریقت کا علم رکھتا ہو ،چلہ کشی، سالکین کی تربیت اور پیش آنے والے واقعات (۱)کی تعبیر کا علم رکھتا ہو۔ سالکین سے بیعت ، ذکر کی تلقین اور راہ حق کے سالکین کی رہنمائی کیلئے کسی مرشد کامل سے اجازت یافتہ ہو ۔

سلسلہ طریقت بھی لازمی ہے
اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ اس امام کا سلسلہ طریقت ایساہو جو کسی انقطاع کے بغیر رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہواور اگر ایسا امام امی ہو اور قریشی یا ہاشمی یا علوی نہ بھی ہو توکوئی حرج نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ ؐسے ایسے امام کی نسبت باطنی ہے وہ آنحضرت ﷺ کے حقیقی اور قلبی نطفے کی اولاد ہیں صلبی نہیں اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ہر پرہیزگار میرا قلبی وابستگی والاہے‘‘یہ اسی پرہیزگا ر امام کی طرف اشارہ ہے ۔

جہاد اصغرکے واجب ہو نے کی شرائط
جس طرح جہاد اصغر کے واجب ہو نے کے لئے مسلمان ہونا،بالغ ہونا،عقلمند ہونا،آزاد ہونا،مرد ہونا، بوڑھانہ ہونا،اپاہج نہ ہونا،اندھا نہ ہونا، اعضاء کا شل نہ ہونا اور نہ بیمار شخص جو جہاد سے عاجزہو ،جیسی شرائط ہیں۔

جہاد اکبر کے واجب ہو نے کی شرا ئط
اسی طرح جہاد اکبر واجب ہونے کے لئے شرائط یہ ہیں: (۱) صاحب ارادہ ہو۔ (۲) عمر بیس سال کو پہنچی ہو(۱؎)۔ (۳) امام مرشد کی معرفت ہو۔ (۴) توبہ کرے۔ (۵)عزم بلند ہو۔ (۶)اتنا عمر رسیدہ نہ ہو کہ مجاہدہ کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو۔ (۷) ہم پلّہ مرشد کی تقلید میں قید نہ ہو۔(۸)سالکین کی طریقت کامنکر نہ ہو۔ (۹)دماغی طور پر بگڑا نہ ہو۔ (۱۰ ) اور نہ ہی مرشدین پر اعتراض کرنے والاہو۔

جہاد سے انکار گناہ ہے
کسی میں ہر دو جہاد کے وجوب کی شرائط موجود ہوں اور وہ امام بھی پالے اور وہ اسے دعوت دے لیکن اس نے نفس یا مال یا دونوں سے یا اپنے نائب سے جہاد نہیں کیا تو گناہگار ہو گا بشرطیکہ وہ صاحب اقتدار نہ ہو اور اگر صاحب اقتدارہو تو باغی ہے۔ نائب و ہ ہے جسے وہ اپنا قائم مقام بنائے اور اسے کھانے، پہننے کی اشیاء، اسلحہ اور سوارکیلئے سواری اور ہر وہ چیزمہیا کرے جس کا وہ محتاج ہو۔ یہ نیابت اس وقت جائز ہے جب و ہ ابدی عاجز ہو ۔ اگر امام یا نائب اس کو قبول کرے تو قدرت رکھتے ہوئے بھی نیابت جائز ہے۔ امام یا نائب پر واجب ہے کہ اسے جہاد کی دعوت دے اگر قبول کی تو کامیاب ہو گیا اگر قبول نہ کرے توامام پر واجب ہے کہ اسکو قید، قتل یا کسی اور طریقے سے انکار سے باز رکھے امام کو اس معاملے میں اسلا م کی مصلحت کے تحت اختیار ہے اوروہ فیصلہ کسی فساد کا سبب نہ بنے۔

دونوں جہادوں میں فرق
اور اگر ایسا امام نہ پایا جائے جب کہ مسلمانوں میں سے کوئی بادشاہ کافروںسے جنگ کا ارادہ کرے تو جن لوگوں پر امام کی موجودگی میں جہاد واجب ہو، ان پر اس جہادمیں جانا جائز بلکہ مستحب ہے ۔
جہادِ اکبر تو کسی مرشد کی سرپرستی میں ہی جائز ہے اورجس نے کسی مرشد کے بغیر مجاہد ہ کیا وہ گمراہ ہو گیا اور بھٹک گیا ۔جہادِ اصغر فرض کفایہ ہے یعنی جب ایک گروہ اس فرض کی ادائیگی میں مشغول ہو جائے تو باقی لوگ جہاد سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔