حضرت علامہ الحاج محمد حسن نوریؔ کی حالات زندگی


تحریر


تحریر: مولانا محمد حسن شاد کریسی
حضرت علامہ الحاج محمد حسن نوریؔ
اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
إِنَّمَايَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
(التوبہ ۱۲۲)
ترجمہ: بے شک اللہ کے بندوں میں سے صرف وہی لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں جو صاحبان علم ہیں۔
پیدائش:
علامہ محمد حسن نوری گلگت بلتستان کے ایک خوبصورت گاؤں، مرکز علم وادب ، مسکن پیران طریقت سلسلہ ذہب، گلستان مسلک نوربخشیہ کریس کے محلہ چھرہ تھنگ کے ایک دین دار شخص حاجی مراد علی کے گھر ۱۹۵۸ء میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم
علامہ صاحب شروع سے ہی ذہین اور فطین تھے آپ مروجہ علوم پرائمری سکول کریس اور ابتدائی اسلامی تعلیم مدرسہ نوریہ امامیہ میرپی کھور کریس سے حاصل کی۔ مشہور عالم دین، مناظر نوربخشیہ، خطیب خانقاہ معلی کریس ، شاگرد رشید پیر طریقت سید محمد شاہ زین الاخیارؒ اخوند مہدی علی آپ کے اولین استاد ہیں۔ اس کے بعد صرف ونحو اور فقہ کی تعلیم اپنے پھوپھی زاد بھائی علاقہ کریس کے معروف عالم دین، محافظ نوربخشیہ شیخ محمد ابراہیم جن کو مقامی لوگ اخوند ابراہیم کے نام سے پکارتے تھےسےحاصل کی
دینی تعلیم کیلئے شہروں کا سفر
بعدازاں اعلیٰ تعلیم کے لئے شہروں کی طرف رخ فرمایا اور فیصل آباد میں اہلسنت کے ایک مدرسہ میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی کی طرف سفر کیا جہاں آپ نے اہلسنت کا معروف مدرسہ’’ جامعہ بنوری ٹاؤن‘‘ میں داخلہ لیا اس جامعہ سے آپ نے وفاق المدارس کی سند حاصل کی۔ سن ۱۹۷۷ء میں آپ بلتستان واپس تشریف لائے۔ دوران ملازمت آپ نے ۱۹۸۲ء میںکراچی یونیورسٹی سے بی اے، پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۸۳ ء میں بی ایڈاور ۱۹۸۹ء میں تاریخ میں ایم اے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔

ملازمت
آپ بلتستان واپس تشریف لانے کے بعد ۱۹۷۸ میں شعبہ تعلیم سےمنسلک ہوئے۔ محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی اور گریڈ ۲۰تک ترقی ملی آپ مختلف علاقوں اور جگہوں میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ خاص طور پرآپ نےہائی سکول سلینگ، ہائی سکول پرتوک چھوربٹ اور ہائی سکول کریس میں مدرس ،ہیڈماسٹر اور ڈی ڈی او کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ آپ ۱۶ اگست ۲۰۱۸ء بروز منگل کو اپنی چالیس سالہ مدت ملازمت مکمل کرکے ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔

خطیب ، قاری، ذاکر
علامہ محمد حسن نوری مرحوم ایک نام ور عالم دین، بلند پایہ خطیب،شعلہ بیان مقرر، خوش لحن قاری، عاشق آل رسولؑ، ذاکر اہلبیتؑ،دل سوز قصہ خواں، وکیل آل محمدؑ، داعی نظریہ امامت ، بہترین نعت گو ومنقبت خوان ،برجستہ مناظرہونے کے ساتھ ایک بہترین قاضی اورمفتی دین تھے۔آپ بیک وقت بے مثل خطیب، متبحر عالم دین، مدبر، نابغہ روزگار، شعر فہمی میں یکتائے فن اور صاحب بصیرت انسان تھے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی، مزاج شناسی، دوست داری، وضع داری، تحمل ورواداری ،جود وسخا جیسی صفات بھی ان کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اور اپنے دینی عقائد اور اصول پر سختی کے ساتھ کاربند تھے۔ مسلک حقہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ اورپاسبان تھے۔ آپ کی ذہانت اور علمی کمالات کا اندازہ اس وقت ہوتا تھا کہ جب آپ کے ساتھ کوئی علمی گفتگو کرتے یا آپ کی تقاریر سنتے ؛ ایک دفعہ آپ نے خلافت کے موضو ع پر تقر یر کرتے ہوئے خطبہ شقشقیہ کو از اول تا آخر پوری عربی عبارت سمیت زبانی بیان فرمایا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ نوری صاحب کس قدر ذہانت کے مالک ہے کہ کوئی معمولی غلطی کے بغیر اس انداز سے بیان فرمایا کہ سننے والے دنگ رہ گئے نیز آپ قرآنی آیات ، احادیث نبویؐ، نہج البلاغہ کے اقوال ، فقہ احوط کی عبارات ، دعوات صوفیہ امامیہ کی دعائیں ، علامہ اقبال کے سیکڑ وں اشعار اور دیگر بے شمار مدح ومنقبت کو زبانی پڑھتے تو اندازہ ہوتا تھا کہ اس عالم بے بدل نے حصول علم میں کس قدر کوشش کی تھی اور آپ کو عربی اور اردو ادب پر کس حد تک عبور حاصل ہے

کئی زبانوں میں مہارت
آپ کومادری زبان بلتی کے علاوہ اردو ،عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔آپ نے اپنے اساتذہ سے علم صرف ،علم نحو،علم بلاغت ، علم منطق،علم اصول فقہ ،علم فقہ، علم اصو ل حدیث، علم دورہ حدیث ، علم تفسیر اور علم قرأت وتجوید کی تعلیم حاصل کی۔مذکورہ علوم کے علاوہ آپ کو فتویٰ نویسی پر بھی مہارت حاصل تھی۔ قدرت نے انہیں اتنی اعلیٰ اورمنفرد خصوصیات عطا کی تھیں کہ علم ودانش کے اس بحر بیکران پر بڑے بڑے علماء کو رشک تھا۔
آپ ایک عالم دین ،قاضی دین، سرکاری مدرس، خانقاہ معلی کریس کے خطیب وامام جمعہ،محلہ ڈنگا کی مسجد کے پیش امام اور انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کریس کےاہم ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے کافی فعالیت اور گوناگوں مصروفیات کے ساتھ زندگی کے اوقات گزارتے تھے۔ اس طرح آپ صبح تہجد کے وقت سے لے کر رات نماز عشا تک مصروف دن گزارتے تھے۔

دینی خدمات
علامہ حسن نوری مرحوم نے دینی خدمات اور عملی زندگی کا آغاز دور طالب علمی میں ہی کیا تھا ،کراچی میں دور طالب علمی میں نوربخشی طلباء کو منظم کرنے اور مسلک نوربخشیہ کی نشرواشاعت کےلئے ممتاز عالم دین علامہ محمد بشیر اور دیگر علمائے کرام کےساتھ مل کر ندوۂ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور اس تنظیم کے آپ جنرل سیکریٹری ، جوائنٹ سیکریٹری اور شعبۂ قضاوت وفتاوی کے رکن رہے ہیں۔ تنظیم ہٰذا کے پلیٹ فارم سے آپ نے مسلک نوربخشیہ کی ترقی اور آبیاری کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔
آستانہ میر مختار اخیار ؒ کی تعمیر
۱۹۸۵ء میں کریس کے معززین نے اس آستانہ کی تعمیر کا عزم کیا اور ۱۹۸۶ ھ میں پیر طریقت سید عون علی مرحوم کی اجازت سے پیر طریقت سید محمد شا ہ نورانی کی نگرانی میں باقاعدہ تعمیراتی کام کا آغاز ہوا۔ اس تعمیراتی منصوبے میں علامہ محمد حسن نوری نے مالی معاملات کے چیئرمین کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا۔

انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کریس کا قیام
انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ رجسٹرڈ کریس کا قیام بھی علامہ موصوف کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ کریس میں اس انجمن سے پہلے کوئی باقاعدہ رجسٹرڈ انجمن نہیں تھی تاہم انجمن نوریہ امامیہ اور انجمن صوفیان حیدر کرار اور ورکنگ کمیٹی برائے تعمیر آستانہ میرمختار اخیار ؒ کے نام سے مختلف ادوار میں کمیٹیباں کام کرتی رہی ہیں۔ مگر ۱۹۹۱ء میں پیر طریقت سید عون علی کی حیات میں آپ کی اجازت اور تائید سے علامہ محمد حسن نوری کی قیادت میں آل نوربخشیہ کریس کی سطح پر اس انجمن کا قیام عمل میں آیا۔ اس انجمن کی اولین کابینہ میں صدر پیر طریقت سید محمد شاہ نورانی مدظلہ،جنرل سیکریٹری اخوند محمد ابراہیم مرحوم اور فنانس سیکریٹری علامہ محمد حسن نوری مرحوم تھے۔
جامعۃ الصفہ کریس کا قیام
جامعہ الصفہ کا قیام علامہ موصوف ،پیر نوربخشیہ سید محمد شاہ نورانی اور اخوند محمد ابراہیم تینوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ شروع میں محلہ میرپی کھور میں ابتدائی درس وتدریس کے لئے مدرسہ نوریہ امامیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم تھا جہاں معروف عالم دین اخوند مہدی علی درس وتدریس دیا کرتے تھے ۔ ۱۹۹۰ء میں مدرسہ کو مزید فعال انداز میں چلانے کے لئے کریس کےعین وسط میں۲۳ کنال پر مشتمل ایک وسیع وعریض رقبہ حاصل کیا جس کے حصول کے لئے علامہ موصوف نے دن رات جدوجہد کی۔ آپ نے پیر نوربخشیہ سید محمد شاہ نورانی کی نگرانی اور مفید مشاورت کے ساتھ اخوند محمد ابراہیم اور دیگر اکابرین کی معیت میں۱۹۹۱ء میں جامعۃ الصفہ کی بنیاد رکھی اور تین سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد یہ عمارت مکمل ہوئی اور۱۴ اگست ۱۹۹۴ء کو باقاعدہ افتتاح ہوا۔
تعمیر وتجدید خانقاہ کریس
۲۰۱۵ ءمیں پیرزادہ سید شمس الدین کی تحریک پر کریس کے نوربخشی علما ء،معززین اور اراکین انجمن نے خانقاہ معلی کی تعمیر اور تجدید کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی روشنی میں خطیب خانقاہ معلی علامہ حسن نوری مرحوم نے ۳۱ اگست ۲۰۱۵ ء کو نماز جمعہ کے بعد پیر نوربخشیہ کی اجازت سے خانقاہ معلی کی مرمت اورتعمیر نو کا اعلان کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں پیرزادہ سید شمس الدین کوچیئرمین ،اخوند قلی اور محمد نذیرکو ممبر نامزد کیا گیا۔ خانقاہ معلی کی تعمیر میں علامہ حسن نوری مرحوم نے اہم کردار ادا کیا اور کثیر رقم امداد بھی کی۔
مصالحت اور مناظروں میں شرکت
مسلک حقہ کے لئے ان کی ہر سطح پر اور ہر محاذ ومیدان میں بیش بہا خدمات ہیں۔ مسلک نوربخشیہ میں نظریہ امامت کی تحفظ کے لئے ہر وقت آپ نے آواز اٹھائی۔ کبھی تقریر کے ذریعے کبھی تحریر تو کبھی مناظرہ ومصالحت کے ذریعے مسلک کے عقائد اور عملیات کی تحفظ کے لئے قربانیاں دیں۔ اس ضمن میں نوربخشی علماء کے درمیان ۳ اور ۴ جون ۱۹۹۳ء کو جامع مسجد چقچن میں منعقد ہونے والا مناظرہ، ۲۸ جولائی ۱۹۹۴ ء کو مفتی محمد عبداللہ کے دولت سرا خپلو میں ہونے والےاجلاس اور ۱۸ جولائی ۱۹۹۹ء کو بلغار میں ہونے والا غیر منعقدہ مناظرہ وصلح بلغار قابل ذکر ہے۔
تقاریر ، خطابت وقصہ خوانی
آپ ایک بلند پایہ خطیب اور دل سوز قصہ خواں تھے،مسلک نوربخشیہ اور پورے بلتستان میں ایک جانے پہچانے خطیب اور شعلہ بیان مقرر کی حیثیت سے مشہور ومعروف تھے۔ ۱۹۸۱ءمیں گلگت میں نادرن ایریاز کی سطح پر ہونے والے ایک تقریری مقابلے میں آپ نے اول پوزیشن حاصل کی۔
خانقاہ معلی میر مختار اخیارؒ کریس میں آپ نے للہ فی اللہ بغیر کسی معاوضہ واجرت کے تقریباً ۴۵ سال تک خطابت اور محرم الحرام کی مرکزی مجالس میں قصہ خوانی کے فرائض انجام دیے۔
جمعہ وجماعت کی پابندی
کریس کےعوام بالعموم اور محلہ ڈنگاہ کے عوام بالخصوص اس بات کے شاہد عدل ہیں کہ نوری مرحوم کس قدر جمعہ وجماعت کے پابند تھے۔ جب تک آپ تندرست اور صحت مند تھے آپ نے کبھی پنجگانہ نماز جماعت یا جمعہ کی نماز کو ترک نہیں کیا۔آپ ہر اوقات میں اپنی حاضری کویقینی بناتے تھے ۔ بلکہ آپ کسی بھی مقام پر نماز کے اوقات میں پہنچے تو وہاں جماعت قائم کرتے اور لوگ آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے۔ کریس کے کسی بھی محلہ میں اگر نماز کے وقت میں آپ پہنچتے تو لوگ خوشی محسوس کرتے ہوئے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر فخر کرتے تھے۔
تربیت اولاد
آپ کی سب سے بہترین خوبی اور دینی خدمات میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ واحد وارث اور اکلوتا بیٹا جناب محمد الیاس نوری کو دین کی راہ میںلاکر ایک عالم دین بنایا وگرنہ دیگر کئی علما کی اولادیں علم کی زیور اور دین سے دور نظر آتےہیں۔ مگر نوری مرحوم نے اپنے بیٹے محمد الیاس نوری اور پوتے سجاد حسین نوری صاحبان کو دین کی راہ میں عالم بنایا اور دونوں نے نوربخشی دنیا کی عظیم درس گاہ’’ جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ‘‘ کراچی میں علامہ شیخ سکندر حسین اور علامہ شیخ محمد محسن اشراقی کے سائےمیں علم حاصل کیا اور دونوںکوتعلیم مکمل کرکے فراغت کا شرف حاصل ہوا۔
مرحوم کی دینی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔خصوصاً کریس میں ان کی مذہبی خدمات ،انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے لئے ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔

قلمی خدمات
قلمی خدمات کے حوالے سے نوری مرحوم کی علمی قابلیت اور استعداد کے شایان شان وہ کام نہ ہوسکے جس کی ہمیں توقع تھی۔جس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں: ملازمت اور دیگر گوناگوں مصروفیات اور مسائل اس راہ میں حائل رہے۔تاہم آپ نے اپنی زندگی میں اس حوالے سے جو کام سر انجام دیے ہیں۔ ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:
۱…الفرقۃ الناجیہ
۲…الحجۃ البالغہ
۳…فیضان یثرب وبطحا
۴…کتاب الزیارت
۵…بلتستان میں اشاعت اسلام(مقالہ،غیر مطبوعہ)
۶… درس اخلاق (مضامین)
۷…مقدمہ تاریخ کریس
۸… تعلیمات محمد ؐوآل محمد ؑکے فروغ میں جامعہ کا کردار
۹… فقہ احوط اردو ترجمہ اعجازحسین غریبی کی تصحیح

سفر حج وزیارت
آپ نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ جولائی ۱۹۹۲ ء میں فریضہ حج ادا کیا۔اس کے بعد ۱۹۹۴ء میں عراق اور ایران میں ائمہ معصومین ؑ اور بزرگان دین ؒکے مقدس آستانوں اور مقامات کی زیارت فرمائی۔۱۹۹۸ ء میں آپ کو ایران ، عراق کے مقدس مقامات کی زیارت کے ساتھ شام میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے آستانے کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔بعدازاں ۲۰۱۴ء میں عمرہ ادا کیا اور ۲۰۲۰ء میں پوری فیملی کے ساتھ دوسری دفعہ عمرہ کی سعادت کے ساتھ مکہ و مدینہ کی زیارت کاشرف بھی حاصل کیا۔
آخری ایام
۲۰۱۸ ء میں آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ ملازمت سے فراغت کے بعد آپ مزید فعالیت کے ساتھ دین وملت کی خدمت کا عزم رکھتے تھے تاہم طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے یہ ارمان پورا نہ ہوسکا۔ عرصہ دو سال سے آپ کے گھٹنے میں درد کی وجہ سے پنجگانہ نماز کے لئے مسجد اور جمعہ کی نماز کے لئے خانقاہ معلی بھی نہ آسکے۔ تاہم محرم الحرام کی مجالس اور قصہ خوانی کے لئے بذریعہ گاڑی آپ بدستور خانقاہ معلی میں حاضرہوتے رہے ۔ محرم الحرام ۱۴۴۴ھ کا پورا عشرہ کی مجالس بھی خانقاہ معلی کریس میں آپ ہی نے پڑھائی ۔اس طرح آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہو ئی کہ زندگی کے آخر تک آپ نے خانقاہ معلی کریس میں مجلس خوانی اور قصہ خوانی کا شرف حاصل کیا۔

انتقال پرملال
علامہ موصوف نے۶۵ سال کی عمر میں ۱۲ شعبان المعظم ۱۴۴۴ھ بروز اتوار کو سکردو میں رحلت فرمائی اور ہمیشہ کے لئے ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اہلیان کریس کی کثیر تعداد اور بلتستان بھر سے مذہبی اور سیاسی شخصیات نے سکردو سے قافلہ کی شکل میں مرحوم کی جسد خاکی کو کریس میں لایا اور خانقاہ معلی کریس میں پیرزادہ سید شمس الدین کی امامت میں جبکہ محلہ ڈنگاہ میں سید محمد الموسوی میر واعظ خانقاہ معلی سرمیک کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ نماز جنازہ میں بلتستان بھر سے ہر مکاتب فکر کے علمائے کرام، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عوام الناس نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور اپنے آبائی قبرستان ڈنگاہ کریس میں پیر طریقت حضرت میر سید جلال سید الاخیار ؒکے آستانے کے قریب اپنے پھوپھی زاد بھائی معروف عالم دین اخوند محمد ابراہیم کے پہلو میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ آپ کی جسد خاکی کو سپرد خاک کیا گیا۔ پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ ،ایک بیٹا اور تین بیٹیاں سوگوارچھوڑیں۔
یقیناً نوری مرحوم کی وفات اہل نوربخشیہ کے لئے بالعموم اور اہلیان کریس کے لئے بالخصوص ایک عظیم سانحہ ہے۔مرحوم بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ، ایک تحریک ،ایک ادارہ، ایک عہد اور ایک دور تھا۔آپ کی وفات سے نوربخشی مسلک میں جو خلا پیدا ہوا اس کا پر ہونا محال ہے۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علامہ مرحوم کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے کام کرنے کی توفیق دے۔آمین

Allama Muhammad Hassan Noori

Allama Muhammad Hassan Noori