معجزات امام حسین علیہ السلام


دھن مبارک سے مرض کو شفا دینا
معجزہ ۱:۔ کتاب بصائر الدرجات میں ہے اس کتاب میں صالح بن چشم روایت کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں عبابہ بن ربیعی کے پاس گیا انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ میں تم کو ایسی خبر سنانے والا ہوں جو کہ میں نے حضرت امام حسینؑ سے سنی ہے تو ہم نے کہا اے عبابہ بیان کرو تو انہوں نے کہا کہ میں امام حسینؑ کی زیارت کے لئے جایا کرتا تھا اچانک میری دونوں آنکھوں کے درمیان برص کا نشان پڑگیا اس وجہ سے میں نے زیارت کرنا چھوڑ دیا جب امام حسینؑ میرے عارضہ سے مطلع ہوئے تو اپنے اصحاب کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے تو میں نماز میں مشغول تھا پس امام حسینؑ نے فرمایا اے عبابہ کئی عرصہ سے تم میرے پاس نہیں آئے تو میں نے کہا یابن رسول اللّہ میرے منہ پر یہ مرض ہوا ہے تو امام حسین نے فرمایا مقنعہ اٹھاؤ تو میں نے اٹھایا تو امام حسین نے اپنا لعب دھن اسی جگہ پر گرایا اور فرمایا کہ خدا کا شکر کہ اس ذات نے تمہارے مرض کو شفاء دی یہ سن کر میں نے سجدہ کیا اور خدا کا شکر ادا کیا جب میں نے سجدے سے سر کو اٹھایا تو امام حسین نے فرمایا آئینہ دیکھو تو میں نے دیکھا مطلقاٌ اس مرض کا نشان تک بھی نہ تھا۔
وصیت کرنیکے لئے مردہ کو زندہ کرنا
معجزہ ۲:۔ قطب راوندی نے خالد کابلی سے روایت کی ہے اس نے کہا کہ میں ایک دن امام حسین کی خدمت میں تھا اچانک ایک جوان روتا بیٹھتا ہوا آیا تو امام نے اس سے پوچھا تو کیوں رورہا ہے تو اس نے کہا کہ ابھی ابھی میری والد کا انتقال ہوا ہے اور مجھے وصیت کی ہے کیونکہ مالدار تھی جب میں مرجاؤں تو کچھ کام نہ کرنا جب تک امام حسین سے عرض نہ کرنا امام حسین نے فرمایا اٹھو اس صالحہ عورت کے پاس چلے جب اس مکان کے درازے پر پہنچے جہاں اسے لٹادیا تھا تو حضرت آ کر دروازے پر کھڑے ہوئے اور دعا کی کہ ،خداوند کریم اسے زندہ کر یہ اپنے مال وغیرہ کی وصیت کرے جب امام حسین دعا سے فارغ ہوے تو وہ عورت اٹھ بیٹھی اور کلمہ شہادت پڑھا جب اس کی نظر امام حسین پر پڑی تو کہا اے میرے مولا گھر میں تشریف لائے جو کچھ میرے حق میں جو مصلحت جانے اسکا مجھے حکم کیجئے یہ سن کر امام حسین اس کے گھر میں جاکر سرہانے بیٹھے اور فرمایا خدا تم پر صحت نازل کرے تو وصیت کرتو اس عورت نے کہا یابن رسول اللّٰہ میرے پاس اس قدر مال ہے اور فلان جگہ رکھا ہے اس کو آپ اپنے دوستوں میں جیسے میں تقسیم کریں اس سے دو ثلث اس پسر کا حصہ ہے۔
صلصائل کو آپؑ کا نجات دینا
صلصائل ایک فرشتہ تھا جس کے حکم خداوندی میں تامل کرنے کی وجہ سے پروبال جلا کر ایک جزیرے میں پھینک دیا گیا تھا۔ جس رات کو حضرت امام حسین پیدا ہوئے اور فرشتہائے آسمان مبارک کے واسطے روئے زمین پر آئے۔ اس اس جزیرے سے ان کا گزر ہوا صلصائل فرشتے نے ان سے پوچھما کہ تم سب اس جوش خروش کے ساتھ کہاں جارہے ہو تو انہوں نے کیفیت بیان کیم۔ صلصائل نے کہا میں تم سب کو اللّٰہ تعالی اور اس کے رسول کا اور اس مولوں کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے بھی اپنے پروں پر اٹھا کر لے چلو شاید اس مولود بچے کی برکت سے میری تمام خطائیں بھی معاف ہو جائیں تو فرشتے اس کو اٹھا کر رسول خدا کے پاس لے گئے اور صلصائل کی کیفیفت بیان کی۔ آنحضرت نے اس کی کیفیت سن کر خانۂ فاطمہ زہراؑ میں تشریف لائے اور فرمایا میرے فرزند حسینؑ کو لے آؤ۔ آپؐ نے حسینؑ کو گود میں لیا اور یہ دعا فرمائی۔ اللھم انی اسئلک بحق النبی الحسین ان تغفر لصلصائل و تجبر کسر جناحیہ و تردہ الی مقامہ مع الملٰئک المقربین۔
پرودگار میرے اس فرزند کا واسطہ صلصائل کے تمام گناہ کو بخشدے اور اس پر ہائے شکستہ کو دوبارہ عطا کر اور پھر اس کو ملائکہ مقربین میں جگہ دے۔
پس حسینؑ کی برکت سے دعا فوراًقبول ہوئی اور وہ فرشتہ ان ہی فرشتوں کے ساتھ اپنے مقام پر پہنچ گیا۔
طفیل امام حسینؑ سے فطرس کو نجات ملنا
کتاب رفاقت الشہداء میں ہے ایک فرشتہ جس کا نام فطرس تھا اس پر عتاب خدا ہوتا تھا۔ وہ سات سو برس تک ایک جزیرے میں اللّٰہ تعالی کی عبادت کرتا رہا اس وقت روئے زمین پر امام حسینؑ جب پیدا ہوئے تو جبریل ہزاروں فرشتوں کے ساتھ مبارک باد کے واسطے رسول خداؐ کی خدمت میں آرہے تھے۔ ان کا گزر اسی جزیرے سے ہوا جہاں فطرس تھا فطرس نے جبریل سے پوچھا تم اس جوش و خروش کے ساتھ کہاں جارہے ہو۔ اس وقت جبریل نے اس کی کیفیت بتائی تو فطرس نے کہا مجھے بھی لے چلو۔ تاکہ اس نومولود بچے کی برکت سے مجھے بھی مغفرت مل جائے تو اس وقت جبریل امین اس کو رسولؐ کی خدمت میں لے آئے مبارک باد دینے کے بعد اس کی کیفیت بیان کی تو آنحضرت ؐ نے فطرس سے فرمایا کہ تو اپنے بدن کو اس نومولود بچے کے بدن سے مس کر جب اس نے اپنے بدن کو مس کیا تو فوراً بال ویرا از سر نو پیدا ہوگئے اور خوشی خوشی آسمان کی طرف پرواز کر گیا۔ بعد ازاں حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے واقع ہونے کے بعد اسے اس جادثہ کا علم ہوا اس نے رب عزت میں دعا کی الٰہی کیا ہی اچھا ہوتا اگر مجھے اس کام کی خبر دی جاتی اور میں اپنے ساتھیوں کو لے کر زمین پر امام حسینؑ کے دشمنوں سے جنگ کرتا۔ خالق کائنات نے فرمایا اگر تجھے وہ واقعہ میسر نہ آسکا۔ تو اب اپے تابع فرماں ستر ہزار فرشتوں کو لے کر مزار امام حسینؑ پر چلا جا اور رو رو کر اپنے افسوس کا ثواب ان لوگوں کو پہنچاتے رہنا جو غم حسینؑ پر گریاں کناں ہوں گے۔ چنانچہ فطرس زمین پر آگیا اور اس کام میں مصروف ہو گیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔
زین واقعہ دیدۂ ملک گریاں است
زین غم دل مہر فلک بریاں ست
ہرنی کا امام حسینؑ کو بچہ پیش کرنا
کنز الغرائب میں روایت کی ہے کہ حضور اکرمؐ کے خدمت ایک اعرابی شکاری حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہؐ میں نے ایک ہرن کا بچہ شکار کیا ہے اور آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ قبول فرمایا اور اس کو رخصت فرمائیں۔ سرکار دوعالمؐ نے اس شکاری کا ہدیہ قبول فرمایا اور اس کو رخصت کر دیا اسی دوران حضرت امام حسنؑ مسجد میں تشریف لائے اور ہرن کے بچے سے پیار کرنے لگے حضورؐ نے ہرنی کا بچہ نواسے کو عطا فرمایا اور حضرت امام حسنؑ ہرنی کے بچے لے کر گھر تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت امام حسینؑ تشریف لائے اور اپنے بھائی کو ہرن کے بچے کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو پوچھا پیارے بھائی جان یہ بچہ باپ کو کس نے عطا کیا ہے؟ حضرت امام حسینؑ نے فرمایا نانا جان نے عطا کیا ہے۔ تو حضرت امام حسینؑ مسجد میں تشریف لائے اور نانا جان سے عرض کرنے لگے ۔ نانا جان آپ نے بھائی کو ہرن کا بچہ دیا اور مجھے محروم کیا۔ جگر گوشۂ بتول باربار پیار سے نانا جان سے ہرن طلب کر رہے تھے اور رسول ؐ پیارے نواسے کو پیار کر رہے تھے کہ کہیں وہ رونا شروع نہ کردیں۔ ادھر حسینؑ نانا جان سے ہرن کا بچہ طلب کر رہے تھے ادھر ہرنی اپنے بچے کو لے کر خدمت رسول میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگی۔ دوسرا میرے ساتھ پھر رہا تھا کہ اچانک کہیں سے آواز آئی کہ جلدی سے اپنے دوسرے بچے کو لے کر خدمت رسولؐ میں حاضر ہو جاو کیونکہ حسینؑ ہرن کا بچہ مانگ رہے ہیں۔ اگر امام حسینؑ نے رونا شروع کر دیا تو ان کے ساتھ ملائکہ مقربین بھی رونا شروع کر دیں گے۔ اس لئے حسینؑ کے رونے سے پہلے جلدی سے اپنے دوسرے بچے کو بھی حضورؐ کی خدمت میں پیش کردو۔ یہ سننا تھا کہ تیزی کے ساتھ آپکے ہاں یہ بچہ بطور ہدیہ لائی ہوں خدا کا شکر ہے کہ ابھی آپکے جگر گوشے کی آنکھوں میں انسو نہیں آیا رسول اللّٰہ نے اس ہرنی سے بچہ لے کر امام حسین کو عطاء فرمایا اور ہرنی کو رخصت کردیا شہزادہ رسول ہرنی کا بچہ لے والدہ محترمہ سیدہ فاطمہ زہرہؑ کے پاس آگئے اور انہیں تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ بیان کیا حسین کا مرتبہ دیکھیں کہ ملائکہ مقربین اور رحمۃ العلمین حسین کے رخساروں پر آنسوں کے قطرات کو گواہ نہیں کرتے تو آج ان کی محبت دل رکھنا عجیب بات نہیں۔
آپکے پیدائش کے وقت جہنم کو بند رکھنا
ابن بابویہ نے بسند معتبر ابن عباس سے روایت کی ہے رسول خدا نے فرمایا ایک فرشتہ ہے اس کا نام دردائیل ہے اس کے سولہ ہزار بازو تھے اور ہر بازو سے دوسرے بازو تک آسمان وزمین کے فاصلہ کے برابر ہے ایک روز اس کے دل میں اللّٰہ تعالی کے حکام میں تردد پیش آیا یہ مناسب عظمت پروردگار نہ تھا اس وجہ سے اللّٰہ تعالی نے اس کے بازو کو کمزور کرکے وحی کی اور پرواز کرنے کا حکم کیا تو وہ پانچ سو سال تک پرواز کرتا رہا جب اللّٰہ تعالی کو معلوم ہوا کہ وہ بہت تھک گیا ہے تو اللّٰہ نے فرمایا تو اپنی جگہ پر لوٹ جاؤ کہ میں ،خداوند عظیم ہوں تمام بڑی بڑی چیزوں سے بڑا ہوں اور مجھ سے بلند تر کوئی چیز نہیں ہے اس کے بعد خدا نے اس کے پر گرادئے اور تمام ملائکہ سے خارج کردیا جب جمعے کی رات کو حضرت امام حسینؑ پیدا ہوئے اس وقت اللّٰہ تعالی نے خازن جہنم کو حکم کیا کہ جہنم کی آگ کو جہنم والوں سے ٹھنڈا کردے اس مولود کی کرامت کی وجہ سے جوکہ حضرت محمد کے ہاں پیدا ہوا ہے اور بہشت کے رضوان کو وحی کی بہشت کو سجائے اور خوشبو کردے اس مولود کی کرامت کی وجہ سے جو حضرت محمدؐ کے ہاں پیدا ہوئے ہے اورحور العین کو وحی کی کہ اپنے آپکو زینت کرو اورہر ایک دوسرے کی زیارت کو جاؤ اور تمام ملائکہ کو وحی کی صف بندی کریں تسبیح وتمہید وتکبیر کرو اورجبریل کو وحی کیاکرمیرے رسول محمد کے پاس مع ایک ہزار قبیلے ملائکہ کے ہر قبیلہ ایک ملائکہ پر مشتمل ہوتا ہے سب کے سب اسبان ابلق زین ولگام کے ساتھ سوار ہوں اور ان پر قبہ ہائے یاقوت نصب کر اورتمام روحانی ملائکہ کو اپنا ساتھ لے جاؤ اس زینت کے ساتھ حضرت محمد کے پاس جاؤ اور ان کو تہنیت ومبارک باد دو اورآنحضرتؐ کو یہ بھی خبر دو کہ اس مولود بچے کا نام حسینؑ رکھیں بحکم خدا جبریل زمین پر آئے وہ دردائیل کے پاس سے گزر اس وقت دردائیل نے کہا اے جبریل یہ کیا واقعہ ہے جو کہ میں آج کی رات آسمان پر دیکھ رہا ہوں کیا قیامت برپا ہوئی ہے جبریل نے کہا نہیں بلکہ دنیا میں ختم النبیین حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فرزند پیدا ہوا ہے خدا نے مجھے اپنے جانب سے مبارک بادی کے لئے بھیجا ہے۔ دردائیل نے کہا کہ میں تم کو اس خدا کی قسم دیتا ہوں تمہیں اور مجھے جس نے پیدا کیا ہے جب تم آنحضرت ؑ کی خدمت میں پہنچو تو میرا بھی سلام کہنا اور حضرت سے کہنا کہ بحق اس مولود کے میں آپؐ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ اپنے پرودگار سے سوال کریں کہ وہ مجھ سے خوشنود ہو جائے اور میرے بازو پھر سے مجھے عنایت کر دے اور مجھے میرے مقام پر صفہائے ملائکہ میں جگہ دے۔ تو جبریلؑ نے اللّٰہ تعالی کی طرف سے آنحضرتؐ کو مبارک باد دی اس کے بعد جبریل نے آنحضرت کو دردائیل کا پیغام دیا اور جس بلا میں مبتلا ہو گیا تھا وہ بھی بیان کی تو رسول خداؐ نے حضرت امام حسینؑ کو اپنے مبارک ہاتھوں میں اٹھایا اور امام حسینؑ پارچہ پشمین میں لیٹے ہوئے تھے پھر آسمان کی طرف بلند کیا اور بارگاہ الہی میں بحق مولود کے جو تجھ پر ہے اور اس کے جو جد محمدؐ‘ اسماعیلؑ اسحاقؑ اور یعقوبؑ پر ہے اگر حسینؑ کی تیرے نزدیک قدر منزلت ہے تو دردائیل سے راضی ہوجا اور اس کو اپنی جگہ واپس پہنچا دے۔ حق تعالی نے آنحضرت کی دعا کو قبول فرمایا اور اس فرشتہ کو بخش دیا اس کے بازوں کو پھر بدستور صحیح کیا اسور اس کو اس کی جگہ صفہائے ملائکہ میں جگہ مقرر کیا اور اس فرشتے کو آسمان میں اس وجہ سے پہچانتے ہیں کہ یہ آزاد کردۂ حسینؑ ہے۔
شاعر فرماتا ہے:۔
اخذ النبی ید الحسین و رضوہ
یوما و قال صحبہ فی مجمع
من و دنی یا قوم او ھذین او
ابو بھما فالخلد مسکنہ معی
روایت ہے کہ رسول خداؐ نے حسنین علیہما السلام کو اپنی پشت پر سوار کیا حسنؑ کو دائیں طرف اور حسینؑ کو بائیں طرف اور فرمایا۔ اے فرزندو تمہاری سواری تمام سواریوں سے بہتر ہے اور تم دونوں تمام سواروں سے بہتر ہو اور تمہارے باپ تم سے افضل ہے۔