عظمت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام


شیخ کشی نے بسند معتبر علی بن زید سے روایت کی ہے کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا۔ تم کہتے ہو کہ علی بن الحسین علیہ السلام انپے وقت میں اپنی مثل ونظیر نہ رکھتے تھے۔ سعید نے کہا ہاں ایسا ہی تھا لیکن کسی نے ان قدر نہ جانی علی بن زید نے کہا۔ یہی حجت تمہارے واسطے کافی ہے۔ کہ آنحضرت کے جنازہ پر تم نے نماز نہ پھڑی۔ سعید نے کہا قراء مکہ معظمہ میں نہیں جاتے تھے اور حضرتؑ ہی کے پاس حاضر رہتے تھے تاوقتیکہ حضرت تشریف نہ لے جاتے۔ ایک سال میں آنحضرت کی خدمت میں گیا۔ ہزار حاجی آنحضرت کی خدمت میں تھے۔ جب منزل عقبہ میں قافلہ اترا حضرت نے دو رکعت نماز ادا کی۔ بعد نماز سجدہ میں گئے اور سجدے میں تسبیح پڑی۔ پس جتنے بھی درخت ہوئے اور صدائے تسبیح سب سے بلند ہوئی یہ حال دیکھ کر مجھے تعجب ہوا۔ جب حضرت نے سجدے سے سر اٹھایا۔ فرمایا اے سعید تجھے تعجب ہوا میں نے کہا ہاں یا ابن رسول اللہ حضرت نے فرمایا جب حق تعالی نے جبریل کو خلق کیا یہ تسبیح ان کو فرمائی جبرئیل نے یہ تسبیح پڑی تو تمام آسمانوں نے اور جو کچھ ان میں تھا سب سے تسبیح میں جبریل کی موافقت کی ۔ اور اس تسبیح میں حق تعالی کے اسم اعظم ہیں بعد اس کے جب آنحضرت نے وفات پائی۔ تو اللہ تعالی کے تمام نیکو کار بندے آنحضرت کے جنازہ پر حاضر ہوئے اور سب نے آنحضرت کو بخیرو نیکی یاد کیا۔ اور سب لوگ عقب جنازۂ آنحضرت باہر گئے۔ میں نے کہا ہو سکتا ہے آج مسجد رسولؐ میں تنہا نماز پڑھنے کا موقع مل جائے اس دن کے بعد پھر ایسا دن میسر نہ ہوگا۔ کہ مسجد خالی ہو جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوا تو تکبیر کی آواز آسمان سے میں نے سنی اس کے بعد تکبیرات کی آواز اہل زمین سے بھی میں نے سنی یہاں تک کہ سات تکبیریں اہل آسمان سے اور سات تکبیریں اہل زمین سے میں نے سنیں۔ ان آواز ہائے تکبیرات کے سننے کے بعد میں منہ کے بل زمین پر گرا۔ اور بے ہوش ہو گیا جب ہوش میں آیا لوگ جنازۂ آنحضرت پر سے واپس آچکے تھے اس طرح آنحضرت ؑ کی نماز جنازہ مجھے نصیب نہ ہوئی اور نہ مسجد میں نماز ادا کر سکا۔ یہی میری بد نصیبی ہے اور ہمیشہ میں اس حسرت میں ہوں کہ کیوں آنحضرت ؑ پر نماز نہ پڑھی۔

حضرت امام سجاد ؑ کی عبادت
روایت میں آتا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل زمانہ میں سے سب سے زیادہ اچھا عبادت گزار تھے اس مقام پر یہ بات کافی ہے کہ آپ کے علاوہ کس میں یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی طرح رفتار کرے کیونکہ آپ رات دن میں ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ کے بدن میں لرزہ پیدا ہو جاتا اور رنگ زرد ہو جاتا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو درخت کے تنے کی طرح حرکت نہ کرتے مگر یہ کہ ہوا انہیں حرکت دیتی اور جب الحمد کی قرأت کرتے وقت مالک یوم الدین تک پہنچتے تو آپ کے بدن میں اللہ تعالی کا اتنا خوف طاری ہوتا تھا کہ گویا آپ کے بدن مبارک سے روح پرواز کر جائے گی اور جب سجدے کرتے تو وقت تک سر سجدے سے نہ اٹھاتے جب تک آپ کا پسینہ جاری نہ ہو جاتا عبادت سے راتیں دن ہو جاتیں۔ دن کو روزے رکھتے اور راتوں میں اتنی عبادت کرتے کہ تھکن کے مارے اٹھ کر چل نہیں سکتے تھے کہ بستر تک پہنچ جائیں۔ لہذا چھوٹے بچوں کی طرح گھٹنوں کے بل چل کر اپنے بستر تک جاتے۔ جب ماہ مبارک رمضان ہوتا تو سوائے دعا تسبیح اور استغفار کے کلام نہ کرتے بلکہ صرف اور صرف عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ میرے والد نے فرمایا میں ایک دن اپنے والد گرامی علی ابن الحسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ عبادت نے آپ میں بہت تاثیر کر رکھی ہے اور شب بیداری کی وجہ سے آپ کا رنگ مبارک زرد ہو چکا ہے اور زیادہ گریہ کرنے کی وجہ سے آپ کی آنکھیں زخمی ہو چکی ہیں اور زیادہ سجدہ کرنے کی بناء ہر ایک آپ کی نورانی پیشانی پر گٹا بن چکا ہے اور نماز میں زیادہ ورم آگیا ہے جب میں نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو میں اپنا گریہ نہ روک سکا اور میں رویا آپ تفکر الہی کی طرف متوجہ تھے کچھ دیر بعد آپ نے میری طرف دیکھا تو فرمایا امیر المومنینؑ کی عبادت کی کچھ کتابیں لے آو کہ جن میں آپ کی عبادت لکھی ہوئی ہے۔ جب میں لے کر آیا ان میں سے کچھ چیزوں کا مطالعہ فرمانے کے بعد انہیں زمین پر رکھ دیا اور کہا کس شخص میں یہ طاقت و وقوت ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کی طرح عبادت کر سکے۔

تقوی اور پرہیز گاری
امام کی ایک خصوصیت تقویٰ اور پرہیز گاری تھی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا علی ابن الحسینؑ کردار میں فرزندان بنی ہاشم میں سب سے زیادہ حضرت علی علیہ السلام کے مشابہ تھے۔ آپ کے فرزند حضرت امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں گیا دیکھا کہ وہ عبادت الہی میں غرق ہیں آپ کا رنگ زرد اور آنکھیں زیادہ رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں قدموں پر ورم اور پنڈلیاں خشک ہوچکی تھیں۔ میں نے عرض کیا والد گرامی آپ عبادت میں کیوں بے اختیار ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو کیوں اتنی زحمت و تکلیف میں ڈالتے ہیں؟ میرے والد بزرگوار نے فرمایا بیٹا میں جتنی بھی عبادت کروں تمہارے جد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کی عبادت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے طاؤوس یمانی کہتے ہیں میں نے امامؑ کو دیکھا کہ کعبہ میں سجدے کرتے ہوئے یہ کہ رہے ہیں۔ میرے اللہ تیرا بندہ تیرا محتاج ہے تیرے دروازے پر تیری رحمت و احسان اور بخشش کا منتظر کھڑا ہے۔ جب رات چھا جاتی اور سب لوگ سو جاتے تو حضرت سجاد ؑ اٹھتے اور ایک برتن میں غذاء کندھے پر ڈالتے اور اپنا چہرۂ انور ڈھانپ لیتے تا کہ کوئی پہچان نہ سکے پھر اس کو غربأ کے گھروں میں لے جاتے اور ان میں تقسیم کرتے۔ تقریباً مدینۂ منورہ میں سو بے سرپرست خاندانوں کی دیکھ بال کرتے اور ان میں سے اکثر بینوا اور زمین گیر تھے اور عجب یہ تھا کہ ان خاندانوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ ہماری دیکھ بھال کرنے والے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہیں لیکن آپ کی شہادت کے بعد جب مدد کا سلسلہ بند ہوا تو انہیں معلوم ہوا کہ ہمارے یارو مددگار حضرت امام سجاد علیہ السلام ہی تھے۔ صاحب کشف الغمہ نے نقل کیا ہے کہ ایک دن آپ مسجد س نکلے تو ایک شخص کف آپ سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے بہت نامناسب باتیں آپ سے کیں آپ کے غلاموں نے چاہا کہ اس کو قتل کریں تو آپ نے فرمایا اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔پھر آپ نے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ما ستر عنک من امرنا اکثر۔یعنی جو ہمارے افعال تجھ سے پوشیدہ ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں جو تو جانتا اور کہتا ہے پھر فرمایا کیا تجھے کوئی حاجت و ضرورت لاحق ہے کہ جس میں ہم تیری مدد کریں تو وہ شخص شرمندہ ہوا اور آپ نے سیاہ مربع عبا پہن رکھی تھی وہ اس کی طرف پھینک دی اور حکم دیا کہ اسے ایک ہزار درہم دیا جائے اور اس واقعہ کے بعد جب بھی وہ شخص آپ کو دیکھتا تو کہتا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول خداؐ کی اولاد میں سے ہیں۔ بروایت دیگر کہ حضرت امام زین العابدینؑ کے رشتہ داروں میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضرت کو ناسزا بات کہی آپؑ نے اس کے جواب میں کچھ نہ فرمایا جب وہ شخص چلا گیا تو آپ نے اپنے اہل مجلس سے فرمایا تم لوگوں نے سنا جو کچھ اس شخص نے کہا ہے اب میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ چلو تا کہااس کے پاس جا کر میرا جواب بھی سن لو وہ کہنے لگے ہم چلتے ہیں اور ہم چاہتے تھے کہ آپ اسی وقت اس کو جواب دیتے پس آپ نے جوتا پہنا اور روانہ ہوئے جب کہ آپ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے۔
و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و اللہ یحب المحسنین ۔
راوی کہتا ہے کہ ہم آپ کی اس آیت کو تلاوت کرنے سے سمجھ گئے کہ آپ سے برا بھلا نہیں کہیں گے آپ اس شخص کے گھرتک پہنچے اور آواز دے کر کہا اسے کہو کہ علی ابن الحسینؑ آیا ہے جب اس شخص نے سنا کہ حضرت آئے ہیں تو وہ برائی کے لئے تیار ہو کر آیا اور اسے میں سک نہ تھا کہ آپ اس کی کچھ ناسزا باتوں کا بدلہ لینے کے لئے آئے ہیں جب آپ نے اس کو دیکھا تو فرمایا اے بھلائی تو میرے پاس آیا تھا اور تو نے یہ باتیں مجھے کہیں پس وہ بری باتیں جو تو نے ذکر کی ہیں اگرمجھ میں پائی جاتی ہیں تو میں خد ا سے ان کی بخشش کی دعا مانگتا ہوں اور اگر وہ باتیں جو تو نے کہی ہیں مجھ میں نہیں تو تو خدا تجھے معاف فرمائے۔ راوی کہتا ہے کہ جب اس شخص نے یہ سنا تو آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور کہنے لگا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے خود میں ان برائیوں کا زیادہ سزاوار ہوں۔
حضرت امام زین العابدین اپنے جد بزرگوار کی طرح زمین کی آبادکاری اور کھجوروں کے باغات لگانے میں مشغول رہتے تھے۔ ہر کھجور کے پاس دو رکعت نماز پڑھتے اور نماز کے وقت اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتے کہ غیر اللہ کی طرف ہرگز توجہ نہ رہتے۔ 20؍ دفعہ مکہ مکرمہ کی طرف پیدل سفر فرمایا اور لوگوں کو ہدایت و رہنمائی کی۔ تمام عمدہ انسانی صفات و کمالات آپ کے پاک وجود میں جمع تھیں اور آپؑ درگذر‘ بردباری اور جانثاری کا مکمل نمونہ تھے۔ سینکڑوں غریب و غرباء اور تنگ دست فقیر گھرانوں کی کفالت فرماتے۔ گھر کے سامنے ہر روز کئی گوسفند ذبح کرتے اور تمام غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیتے۔ جن کے پاس نہ لباس ہوتا تو انہیں لباس دیتے مقروض کا قرض ادا کرتے مگر خود سادہ لباس اور غذا سے استفادہ کرتے تھے ایک شخص حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آیا اور برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ امام ؑ نے اس کے سامنے کسی غصے کا اظہار نہ کیابلکہ صبر و تحمل سے کام لیا اور اس سے فرمایا اے بھائی اگر تم سچ کہ رہے ہو اور یہ صفات مجھ میں پائی جاتی ہیں تو خدا وند تعالیٰ مجھے معاف فرمائے اور میرے گناہوں سے درگزر کرے اور اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خداوند متعال تجھے معاف کر لے اور تیرے گناہوں سے در گزر فرمائے۔ وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور امام زین العابدین علیہ السلام سے معذرت خواہی کرنے لگا۔ ابو حمزہ ثمالی حضرت سجاد علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے انہوں نے امام علیہ السلام کے خادم سے کہا کہ مختصر طور پر امامؑ کے اخلاق اور چندفضائل میرے سامنے بیان کرو اس نے کہا کہ کئی سال میں امام سجادؑ کی خدمت کر رہا ہوں ان سے میں نے تقویٰ‘ زہد انکساری سچ اور درستی اور پاکیزگی ہی دیکھی ہے میرے مولا اتنی مشکلات کے باوجود لوگوں کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی مشکلات و پریشانیاں دور فرماتے ہیں۔ زہد بن اسامہ مرض الموت میں مبتلا تھا امام ؑ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے زید رو رہا تھا جب امام ؑ نے رونے کا سب پوچھا تو کہنے لگا میں 15؍ ہزار دینار کا مقروض ہوں اور میری کل جائیداد اس قرض کے لئے ناکافی ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا گریہ نہ کرو اور مطمئین رہو میں تمہارا سارا قرض ادا کروں گا۔

توکل اور زاد و راحلہ
ابراہیم بن ادہم کہتا ہے کہ میں ایک بار صحرا میں قافلہ کے ساتھ چل رہا تھا ایک ضرورت کے خاطر قافلہ سے الگ ہو گیا۔ وہاں پا ایک حسن و جمال سے پر لڑکے کو دیکھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا سبحان اللہ یہ لڑکا تنہا اس ویران صحرا سے گذر رہا ہے۔ میں نے اس لڑکے کے قریب جا کر سلام کیا تو اس نے سلالم کا جواب دیا۔ میں نے کہا اے لڑکے کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ کہا خدا کے گھر جاتا ہوں۔ میں نے کہا اے لڑکے تم بچے ہو تم پر ابھی حج کہاں واجب ہے تو اس نے جواب دیا اے شیخ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ مجھ سے بھی کم عمر لوگ مر گئے ہیں میں نے کہا خیر اگر جاتے ہو تو زاد راہ کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ
زادی تقوای و راحلتی رجلای و قصدی مولای۔
ترجمہ:۔ زاد راہ میرا تقویٰ اور میری سواری میرے دونوں پاؤں ہیں اور میرا مطلوب میرا مولا ہے۔
تب میں نے کہا کہ میں کوئی شے کھانے کی تمہارے پاس نہیں دیکھتا۔ جواب دیا کہ اے شیخ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کوئی شخص تجھے دعوت میں بلائے اور تو اپنے گھر کھانا لے کر جائے۔ میں نے کہا نہیں۔ کہا پھر جس نے مجھے اپنے گھت بلایا ہے وہی مجھے کھانا بھی کھلائے گا اور پانی بھی پلائے گا۔ تب میں نے کہا اھچ جلس قدم اٹھاؤ کہ قافلہ سے مل جاؤ۔ اس نے کہا ہاں میں کوشش کرتا ہوں اور پہنچانا اس کا اختیار میں ہے ۔ کیا تو نیے خدا کا یہ قول نہیں سنا ہے۔
والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا و ان اللہ لمع المحسنین
ترجمہ:۔ اور جو ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو اپنے صحیح راستے دکھا دیں گے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔
ابراہیم کہتا ہے کہ اتنیمیں میں نے دیکھا کہ ایک جوان خوش رفو و سفید لباس پہنے ہوئے آیا اور اس لڑکے کو سلام کیا اور میں نے آگے بڑھ کر اس جوان سے پوچھا قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو یہ حسن و جمال عطا کیا ہے۔ یہ تو بتائیے کہ یہ لڑکا کون ہے۔ اس نے کہا کیا تو نہیں پہچانتا۔ یہ علی ابن الحسینؑ ہے۔ پھر میں اس لڑکے پاس آیا اور کہا آپ یہ بتائیے کہ یہ جوان کون تھا۔ فرمایا کیا تو نہیں پہچانتا یہ حضرت خضرؑ تھے جو ہر روز ہمارے پاس سلام کے واسطے آیا کرتے ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ بغیر زاد و راحلہ کے کیسے آپ یہ مسافت طے کر سکیں گے۔ فرمایا! ایک تو یہ کہ میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کی تمام دنیا اس کی مملکت میں ہے۔ دوسرے میں دیکھتا ہوں کہ جتنی مخلوقات ہیں سب اس کی غلام اور لونڈیاں ہیں اور سب اسی کے محتاج ہیں۔
تیسرے جتنے اسباب رزق ہیں سب اسی کی قدرت میں ہیں۔ چوتھے اللہ کے تمام احکام روئے زمین پر اسی طرح جاری ہیں کہ ہر ایک کو ہر جگہ روزی پہنچتی ہے۔ یہ سن کر میں نے عرض کیا اے امام یہ زاد راہ تو ایسا ہے کہ اس سے سفر آخرت طے کیا جا سکتا ہے یہ سفر دنیا کیا چیز ہے۔