علامات خروج اور مدت حکومت


حضرت امام مہدی ؑکا پایۂ تخت شہر کوفہ ہوگا۔ مکہ میں آپ ؑکا نائب مقرر ہوگا۔ آپ کا دیوان خانہ اور اجرا حکم کی جگہ مسجد کوفہ ہوگی۔ بیت المال جمع کرنے کی جگہ مسجد سہلہ قرار دی جائے گی اور خلوت کدہ نجف اشرف ہوگا۔
صاحب درمنثور رقمطراز ہیں کہ آپ ؑکے عہد حکومت میں مکمل امن و سکون ہوگا۔ بکری اور بھیڑ، گائے اور شیر، انسان اور سانپ، زنبیل اور چوہے سب ایک دوسرے سے بے خوف ہوں گے۔
صاحب الیواقت الجواھر لکھتے ہیں کہ آپ ؑکے عہد حکومت میں معاصی کا ارتکاب بالکل بند ہوگا۔ اور تمام لوگ پاکباز ہوں گے۔ جہل، بخل، جبن کافور ہو جائیں گے۔ عاجزوں اور ضعیفوں کی دادرسی ہو گی دنیا سے ظلم مٹ جائے گا۔ اسلام کے قالب بے جان میں تازہ روح پیدا ہو جائے گی۔ دنیا کے تمام مذاہب ختم ہو جائیں گے۔ نہ عیسائی ہوں گے، نہ یہودی، نہ کوئی اور مسلک ہوگا صرف اسلام باقی رہے گا اور اسی کا ڈنکا بجتا ہوگا۔ آ پ تلوار کے ذریعے دعوت اسلام دیں گے جو قبول نہ کرے گا اسے قتل کر دیا جائے گا۔ جزیہ موقوف ہو جائے گا۔ خدا کی جانب سے شہر عسکا کے ہرے بھرے میدان میں مہمانی ہوگی۔ ساری کائنات مسرتوں سے مملو ہو گی۔ غرضیکہ عدل و انصاف سے دنیا بھر جائے گی۔ اس کے بعد حضرت امام مہدی ؑ کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اب رہ گیا کہ حضرت امام مہدی ؑکی مدت حکومت کیا ہوگی ؟ اس کے متعلق علما ء کے درمیان سخت اختلاف ہے۔ مشکواۃ شریف میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث ابو سعید سے نقل کی ہے۔
عن ابی سعید قال ذکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بلاء یصیب ھذہ الامۃ حتی لایجد الرجل ملجا یلجا الیہ من الظلم فیبعث اﷲ رجلاً من عترتی واھل بیتی فیملأبہ الارض قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً یرضیٰ عنہ ساکن السماء وساکن الارض لاتدع السماء من قطرھا شیأ الاصبتہ مدارا ولاتدع الارض من نباتھا شیئاً الااخرجتہ حتی یتمنی الاحیا ء احیاء الاموات یعیش فی ذالک سبع سنین اوثمان سنین او تسع سنین
ترجمہ: ابو سعید کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ؐنے فرمایا: اس امت پر ایسی بلائیں ٹوٹیں گی یہاں تک کہ انھیںکوئی ایسا شخص کہ جس کی پناہ میں جاکر ظلم سے بچ سکیں نہیں ملے گا۔ پس اﷲ تعالیٰ میری عترت اور اہل بیت میں سے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے پُر کر دے گا جس طرح ظلم اور جور سے پُر ہو چکی ہوگی۔ اس سے آسمان اور زمین کے رہنے والے خوش ہوں گے۔ زمین اپنے اندر جو کچھ ذخیرہ کئے ہوگی وہ سب باہر نکال دے گی اور آسمان کے بھی تمام خزانے عطا کر دئے جائیں گے۔ ان کو دیکھتے ہوئے زندہ لوگ مردوں کے زندہ ہونے کی تمنا کریں گے۔ و ہ ان میں سات، آٹھ سال یا نو سال رہے گا۔
لہذا اس حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آخری زمانہ میں ہونے والے واقعات کی طرف مختصراً اشارہ فرمایا۔ اور اس اہل بیت نبوت یعنی حجت خدا مام مہدی ؑ کے ظہور فرماکر روئے زمین کو عدل و انصاف سے پر کرنے کے بارے میں فرمایا ہے۔ یعنی امام مہدی ؑ کے روئے زمین کو عدل و انصاف سے پر کرنے کے ساتھ آپ کی مدت حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ ؐ نے فرمایا: سات آٹھ یا نو سال حکومت کریں گے۔ بہر کیف اس حدیث سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ آپ کی مدت حکومت کتنی سال ہے۔ یعنی سات، آٹھ یا نو البتہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں امام مہدی ؑ خدا کے حکم کے مطابق روئے زمین پر حکومت کریں گے۔ علامہ شبلنجی نے نورالابصار میں ابوداود سے ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام مہدی ؑ سات سال دنیا کے مالک رہیں گے۔ ایک اور روایت نقل کی ہے کہ امام مہدیؑ کی مدت حکومت دس سال ہو گی۔ ایک اور جگہ پر علامہ شبلنجی نے امام احمد کی مسند سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا کہ مہدی سات، آٹھ یا نو برس زمین کے مالک رہیں گے۔
لہذا نورالابصار کی رو سے امام مہدی ؑ کی مدت حکومت زمین پر سات، آٹھ، نو یا دس سال ہو گی۔ یعنی آخری زمانے میں زمین پر امام مہدی ؑ حکم خدا کے مطابق عدل و انصاف دیا کریں گے۔ اور اس طرح حکومت کریں گے لیکن مدت حکومت میں اختلاف ہے۔
ارشاد مفیدمیں بھی آپ ؑکی مدت حکومت کے بارے میں دو قول نقل کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قول کے مطابق سات سال اور دوسرے قول کے مطابق انیس سال نقل ہوئے ہیں۔ اعلام الوری میں بھی انیس سال لکھا ہے۔
غایۃ المقصود میں حلیتہ الاولیا ء کے حوالہ سے سات، آٹھ اور نو سال، ینابیع المودۃ میں ۲۰ سال مرقوم ہے۔ ہو سکتا ہے ایک سال دس سال کے برابر ہو۔
خلاصہ: تواریخ کے حوالے سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت امام مہدی ؑ کی زمین پر مدت حکومت باطنی طور پر سات سال بالاتفاق تمام مورخین کے نزدیک قرار پائی۔ لیکن مورخین نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ ۸ سال ۹ سال اور ۱۰ سال ہو۔ علامہ شیخ مفید اور علامہ شبلنجی نے لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی حکومت کا ایک سال دس سال کے برابر ہو تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بالفرض مدت حکومت سات سال قرار دیں تو سات سال کو دس سال کے ساتھ ضرب دینے سے کل ستر سال آپ کی حکومت کے بنتے ہیں۔
آپ کا کام یہ ہوگا کہ آپ ایسے لوگوں کی تصدیق نہ کریں گے جو خدا کے مخالف اور اس کی آیتوں پر یقین نہ رکھنے والے ہوں۔ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سے برآمد ہوں گے۔ ان کے ہاتھ میں حضرت سلیمان کی انگوٹھی اور حضرت موسیٰ کا عصا ہوگا۔ جب قیامت قریب ہوگی تو آپ عصا اور انگشتری سے ہر مومن اور کافر کی پیشانی پر نشان لگائیں گے۔ مومن کی پیشانی پر ’’ھذا مومن حقاً‘‘ اور کافر کی پیشانی پر ’’ھذا کافر حقاً‘‘ تحریر ہو جائے گا۔
ارشادالطالبین، ص ۴۰۰، قیامت نامہ، ص ۱۰، مشکوۃ المصابیح، ص ۴۶۴ میں تحریر فرماتے ہیں کہ دابتہ الارض دوپہر کے وقت نکلے گا۔ جب اس دابتہ الار ض کا عمل درآمد شروع ہو جائے گا تو باب توبہ بند ہوجائے گا اور اس وقت کسی کا ایمان لانا کارگر نہ ہوگا۔ حضرت امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؑ مسجد میں سو رہے تھے اتنے میں رسول کریم ؐ تشریف لائے اور آپ نے فرمایا: ’’قم یا دابۃ اﷲ‘‘ اس کے بعد ایک دن فرمایا: ’’یا علی اذاکان اخرجک اﷲ‘‘ الخ۔ اے علی جب دنیا کا آخری زمانہ آئے گا تو خدا وند عالم تمہیں برآمد کرے گا۔ اس وقت تم اپنے دشمنوں کی پیشانیوں پر نشان لگاؤگے۔
آپ نے یہ بھی فرمایاکہ ’’علی دابۃ الجنۃ‘‘ ہیں۔ لغت میں ہے کہ دابہ کے معنی پیروں سے چلنے پھرنے والوں کے ہیں۔
کثیر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آل محمد کی حکمرانی جسے صاحب ارجح المطالب نے ’’بادشاہی‘‘ لکھا ہے۔ اس وقت تک قائم رہے گی جب دنیا کے ختم ہونے میں چالیس یوم باقی رہیں گے۔
اعلام الوری میں لکھا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے چالیس دن کی مدت قبروں سے مردوں کے نکلنے اور قیامت کبریٰ کے لئے ہوگی۔ حشر و نشر، حساب و کتاب، صور پھونکنا اور دیگر لوازم قیامت کبریٰ اس میں ادا ہوں گے۔
اس کے بعد حضرت علی ؑ لوگوں کو جنت کا پروانہ دیں گے لوگ اسے لے کر پل صراط پر سے گزریں گے۔
پھر آپ حوض کوثر کی نگرانی کریں گے جو دشمن آل محمد حوض کوثر پر ہوگا اسے آپ اٹھا دیں گے۔
پھر آ پ لواء الحمد یعنی محمدی جھنڈا لے کر جنت کی طرف چلیں گے۔ پیغمبر اسلام آگے آگے ہوں گے۔ انبیاء، شہداء، صالحین اور دیگر آلِ محمد کے ماننے والے پیچھے ہوں گے۔
پھر آپ جنت کے دروازے پر جائیں گے اور اپنے دوستوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کریں گے اور دشمنوں کو جہنم میں جھونک دیں گے۔
اس لئے حضرت محمد مصطفی ؐ نے حضرت ابوبکر حضرت عمر حضرت عثمان اور بہت سے اصحاب کو جمع کر کے فرما دیا تھا کہ علی آسمان و زمین دونوں میں میرے وزیر ہیں۔ اگر تم لوگ خدا کو راضی کرنا چاہتے ہو تو علی کو راضی کرو۔ اس لئے کہ علی کی رضا خدا کی رضا اور علی کا غضب خدا کا غضب ہے۔
علی کی محبت کے بارے میں تم سب کو خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ اور تم علی کو راضی کئے بغیر جنت میں نہ جاسکو گے اور علی سے کہہ دیا کہ تم اور تمہارے پیروکار ’’خیر البریہ‘‘ یعنی خدا کی نظر میں بہتر ین لوگ ہیں۔ یہ قیامت میں خوش ہوں گے۔ اور تمہارے دشمن ناشاد و نامراد رہیں گے۔
علامات قبل خروج مہدی ؑ
رسول اﷲ نے فرمایا: قیامت سے پہلے دس علامات ہوں گی، سفیانی اور دجال کا آنا، دھوئیں کا نکلنا۔ قائم (آل محمد ) کا خروج کرنا۔ مغرب سے سورج کا نکلنا، سورج اور چاند میں گرہن لگنا، عدن سے آگ کا آنا اور لوگوں کو محشر کی طرف ہانکنا۔
قزوین سے ایک شخص خروج کرے گا۔ مشرک بہت جلد اس کی اطاعت کریں گے۔ خوف کے مارے مومنین سے پہاڑ بھر جائیں گے۔ جس نے ہم اہل بیت کے قائم کو پایا، اس کے لئے طوبیٰ ہے۔ جس نے قیامت سے پہلے آپ کی اقتدا کی ہو، آپ کو دوست رکھا ہو، آپ کے دشمن سے بیزاری اور ائمہ سے تولّٰی کیا ہو۔ رسولؐ اﷲ نے فرمایا: تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے۔ ان میں سے ایک آدمی کو تم میں سے پچاس آدمیوں کا اجر ملے گا۔ عرض کیا: یا رسول اﷲ ؐہم نے آپ کے ساتھ بدر، احد اور حنین میں جہاد کیا اور قرآن ہمارے بارے میں نازل ہوا۔ فرمایا: جو کچھ وہ برداشت کریں گے۔ تم نے وہ برداشت نہیں کیا۔ جتنا انھیں صبر کرنا ہے، اس قدر تم نے صبر نہیںکیا۔ حزیفہ سے مروی ہے کہ میں نے نبیؐ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مہدی ؑ رکن و مقام کے درمیان بیعت لیں گے۔ آپ کا نام احمد، عبداﷲ اور مہدی ہوگا۔
امیر المومنین ؑ نے اس منبر پر فرمایا: آخری زمانہ میں میرا فرزند خروج کرے گا۔ جو سفید مشرب محزہ مدح چوڑے بطن اور ا ٹھے ہوئے شانوں والا، جس کی پشت پر دو شامے ہوں گے۔ ایک شامہ چمڑے میں ہوگا ایک شامہ نبی کے شامے کی مانند ہوگا۔ آپ کے دو نام ہوں گے ایک خفی اور ایک جلی۔ خفی نام احمد ہو گا اور جلی نام محمد۔ تم دیکھو گے کہ ان کے لئے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام چیزیں روشن ہوجائے گی۔ بندوں کے سر پر ہاتھ رکھیں گے۔ مومن کا دل روشن ہوکر فولاد سے زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔ آپ میں چالیس آدمیوں کی طاقت ہوگی۔ مردے کے دل قبر میں آپ کی وجہ سے خوشی ہوگی۔ وہ قبور میں ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔ (قائم آل محمد کی ) ایک دوسرے کو بشارت دیں گے۔ جگر خوردہ کافر زندیق خشک وادی سے باہر آئے گا۔ وہ ایسا آدمی ہوگا جس کا چوتھا حصہ چہرے کا جانوروں کا سا ہو گا۔ موٹی گردن والا ہوگا جس کے چہرے پر چیچک کے داغ ہوں گے دیکھنے میں کانا معلوم ہوگا۔ اس کا نام عثمان اور اس کے باپ کا نام عتبہ ہوگا۔ وہ ابو سفیان کی اولاد میں سے ہو گا۔ جب شام کی فرشہ بستی پیوند زمین ہو جائے گی تو جگر خوار کے فرزند کے خروج کا انتظار کرنا جو خشک وادی سے نکلے گا۔ تمہیں تیر و تاریک فتنہ سے آگاہ کیا ہے۔ اس سے صرف تومہ نجات پائے گی۔ عرض کیا: تومہ کیا ہے ؟ تومہ وہ ہے کہ انسان کو اپنے دل کی بات کا علم نہ ہوگا۔ عمر نے آپ سے مہدی کی صفت دریافت کی۔ فرمایا: وہ جوان ہوگا، خوبصورت چہرے اور بالوںوالا ہو گا۔ بال کندھوں پر پڑے ہوں گے۔ چہرہ کا نور داڑھی کی سیاہی سے بلند ہوتا ہوگا۔ بہترین لونڈی کا فرزند ہوگا۔ قائم کے سامنے سرخ اور سفید موت ہوگی۔ سرخ موت تلوار اور سفید مو ت طاعون ہوگی۔ حسن بن علی ؑ نے فرمایا: جس امر کا تم انتظار کرتے ہو، وہ اس وقت تک نہیںہوگا جب تک تم ایک دوسرے پر تبرا اور لعنت نہیںکروگے۔ ایک دوسرے کے منہ پر نہ تھوکو گے اور ایک دوسرے کے کفر کی گواہی دوگے۔ امام زین العابدینؑ نے فرمایا: مہدی اس وقت تک خروج نہ کریں گے جب تک سورج کے ساتھ ایک آیت طلوع نہ کرے گی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ہمیں مہدی کے اوصاف دلائل اور علامات بتائیں۔ فرمایا: آپ کے خروج سے پہلے جزیرے کی زمین پر ایک آدمی ہوگا جس کا نام عوف سلمیٰ ہو گا۔ جس کا ٹھکانا تکریت ہو گا اور مسجد دمشق کے ساتھ قتل ہوگا پھر سمر قند میں شعیب بن صالح خروج کریں گے۔ پھر سفیانی ملعون خشک وادی سے خروج کرے گا۔ جو عتبہ بن ابو سفیان ملعون کا بیٹا ہوگا۔ امام محمد باقر ؑ نے جعفر جعفی سے فرمایا: آسمان سے آواز آئے گی۔ تمہیں دمشق کے علاقے سے سنائی دے گی۔ شام کی حسابیہ بستی غرق ہو جائے گی۔ اس سال اختلافات کی زمین میںبھر مار ہوگی۔سب سے پہلے جس زمین میں تباہی ہو گی وہ شام کی زمین ہوگی۔ پھر تین جھنڈوں کے بارے میںاختلاف ہوگا۔ اصہب، اشہب اور سفیان کے جھنڈے کے بارے میں۔ صادق آل محمد نے فرمایا: ایک اعلان کرنے والا ابوطالب کے فرزند کے نام کا اعلان کرے گا۔ قیام سے پہلے دو علامتیں ہوں گی۔ جب سے آدم زمین پر آئے ہیں وہ دو علامتیں واقع نہیںہوئیں۔ نصف ماہ رمضان میں سورج گرہن اس کے آخر میں چاند گرہن پھر نجومیوں کا حساب ختم ہوگا۔ خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے جو کوفے کی طرف آئیں گے۔ گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ قائم عاشورہ کے روز شنبہ کے دن واقع ہوگا۔ رکن اور مقام کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں۔ جبرائیل کا ہاتھ آپ کے ہاتھ پر ہوگا اور اعلان کرے گا کہ اﷲ تعالیٰ کی خاطر بیعت کرو۔ آپ زمین کو انصاف سے بھر دیں گے۔ قائم کوفہ میں تشریف لائیں گے۔ ہر مومن آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔ صادق آل محمد ؑ نے فرمایا: سفیانی کا ماہ رجب میں خروج یقینی ہے۔ نفس ذکیہ کا قتل یقینی، دن کے اول حصہ میں منادی آسمان سے ندا کرے گا۔ جس کو ہر قوم اپنی زبان میں سنے گی۔ تمہیں یقین ہو نا چاہیے۔ حق علی اور آپ کے دوستوں کے ساتھ ہے۔ اس وقت باطل پرست شک میںپڑ جائیں گے۔
قائم کے نام کا اعلان ۲۳ رمضان کی شب کو ہوگا۔ عاشور کے روز کھڑے ہوں گے۔ سویا ہوا اٹھ جائے گا۔ بیٹھا ہوا کھڑا ہو جائے گا اور کھڑا بیٹھ جائے گا۔ یہ آواز کی وجہ سے ہوگا۔ اعلان کرنے والا جبرائیل ہوگا۔ قائم جب قیام فرمائیں گے تو مومن کو قبر میں بتلایا جائے گا۔ تمہارے صاحب (امام زمانہ ) ظہور فرما ہیں۔ اگر چاہو تو آپ سے مل جاو۔ اگر اﷲ کی کرامت میںکھڑے ہو نا چاہتے ہو تو کھڑے ہو جاو۔ امام حسینؑ سے مروی ہے کہ میں رسول اﷲ کی خدمت میںحاضر ہوا۔ آپ کے پاس ابی بن کعب بھی موجود تھے۔ مجھ سے رسول اﷲ نے فرمایا: اے ابو عبداﷲ تمہیںخوش آمدید ہو۔ اے آسمانوں اور زمین کی زینت ! ابی نے کہا: یا رسول اﷲ آپ کے سوا آسمان اور زمین کی زینت اور کون ہو سکتا ہے۔ فرمایا: حسین زمین کی نسبت آسمان میں زیادہ مشہور ہیں۔ آ پ کا نام یمین عرش اور انتہا عرش پر لکھا ہوا ہے۔ آپ کی اولاد میں مہدی پیدا ہوگا۔ ہر مومن آپ سے راضی ہوگا۔ انصاف سے فیصلہ کرے گا اور اسی کا حکم دے گا۔ مکہ سے خروج کرے گا حتیٰ کہ دلائل اور علامات مجمع ہوجائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ تمام دنیا کے کونوں سے آ پ کے اصحاب کو جمع کرے گا۔ جو اہل بدر کے مجاہدوں کی تعداد کے برابر ۳۱۳ ہوں گے۔ آ پ کے پاس ایک صحیفہ ہوگا جس میں آپ کے اصحاب کے نام مع ولدیت اور مقام کے ہوں گے۔ابی نے کہا آپ کی علامات اور دلائل کیا ہوں گے ؟ فرمایا: جب آپ کا خروج کا زمانہ ہوگا تو وہ علم خود بخود پھیل جائے گا۔ علم اعلان کرے گا کہ اﷲ کے ولی خروج فرمائے۔ اﷲ کے دشمنوں کو قتل کیجئے۔ آپ کے پاس اﷲ کی تلوار ہوگی۔ آ پ کے خروج کے وقت تلوار خود بخود نکل پڑے گی۔ آپ کو تلوار آواز دے گی یا ولی اﷲ خروج فرمایئے۔ اﷲ کے دشمنوں کے بارے میں بیٹھنا آ پ کے لئے جائز نہیں ہے۔ جبرائیل آپ کے دائیں اور میکائیل بائیں ہوں گے۔شعیب بن صالح آپ کے جیش میں ہوں گے۔ سہل بن سعید سے مروی ہے کہ مجھے ہشام بن عبدالملک نے کنوئیں کھودنے کا حکم دیا۔ ہم نے دو سو قامت کنواں کھودا تو نیچے سے ایک کھوپڑی برآمد ہوئی اس کے ارد گرد کھودا تو پتھر پر کھڑا ہوا ایک آدمی ملا جس نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس کا دایاں ہاتھ سر پر ضرب کی جگہ رکھا ہوا تھا۔ ہم نے ہاتھ کو سر سے ہٹایا تو خون جاری ہوگیا۔ ہاتھ پھر رکھ دیا تو زخم پھر ٹھیک ہو گیا۔ اس کے کپڑ ے پر یہ عبارت لکھی تھی۔ میں شعیب بن صالح اﷲ کا رسول ہوں۔ قوم نے مجھے ضرب لگا کر کنوئیں میں پھینک دیا ہے۔ اور اوپر مٹی ڈال دی ہے۔ یہ واقعہ ہشام کو لکھا۔ کہا دوبارہ مٹی ڈال دو۔ امام رضاؑ نے فرمایا: میرے چوتھے فرزند پر اہل آسمان اور زمین روئیں گے۔ متاسف اور غمگین ہوں گے گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان حضرات کو آواز دی جا رہی ہے۔ جس طرح قریب سے سنائی دے گی۔ اسی طرح دور سے سنائی دے گی جو مومنین کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے عذاب ہوگی۔ حسن بن محبوب نے عرض کیا کون سی آواز۔ فرمایا: ماہِ رجب میں تین آوازیں آسمان سے آئیں گی:
الا لعنۃ اللّٰہ علی الظالمین ازنت الازنۃ یا معشر المؤمنین، ترون بدنا بار ذا الحق عین الشمس،
یہ مومنین کے امیر ہیں اور ظالمین کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ حمیری کی روایت کی رو سے تیسری آواز یوں ہوگی۔ بدنایری فی قون الشمس اﷲ تعالیٰ نے فلاں کو بھیج دیا۔ اس کی بات سنو، اطاعت کرو اور تمام کے تمام حاضر ہوجاؤ۔ اس وقت لوگوں کے پاس فرج آ جائے گی۔ امانتیں ادا ہوں گی۔ اگرچہ ایک دانہ ہی کیوں نہ ہو۔ مومنین کے دل ٹھنڈے ہوں گے۔ امام رضاؑ نے فرمایا: فرج کی علامات ایک حدیث ہوگی جو حرمین کے درمیان واقع ہوگی۔ میں نے عرض کیا وہ حدیث کیا چیز ہے ؟ فرمایا: ایک چھوٹا عصا دونوں مسجدوں کے درمیان ہوگا۔ فلاں بن فلاں عرب کے پندرہ سرداروں کو قتل کردے گا۔ ایک شخص نے ابوالحسنؑ سے فرج کے بارے میں پوچھا۔ فرمایا: یہ اس وقت ہوگا۔ جب قیس کے علم مصر میں اور کندہ کے علم خراساں میں ہوں گے؟ فرمایا: سخت ہاتھ والے اور جوان دکھائی دیں گے۔ دیکھنے والا آپ کو چالیس سال کا یا اس سے کم کا خیال کرے گا۔ ایک علامت یہ ہوگی کہ دن اور رات گزرنے کے باوجود آپ بوڑھے نہیں ہوں گے۔ حتی کہ آپ کو موت آ جائے گی۔ اس قسم کی علامتیں بے شمار ہیں۔ جب قائم خروج فرمائیں گے تو سلام میں آپ کو کہا جائے گا:
السلام علیک یا بقیۃ اللّٰہ فی ارضہ۔
امام محمد تقیؑ نے عبدالعظیم حسینی سے فرمایا: مہدی وہ ہیں جن کا غیبت میں انتظار کرنا اور ظہور کے وقت ایمان لانا واجب ہے۔ وہ میری اولاد میں سے تیسرا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ آپ کا کام ایک رات میں ٹھیک کردے گا۔ جس طرح کہ موسیٰ کا کام جب اپنی بیوی کے لیے آگ لینے گئے تھے۔ ایک رات میں ہوگیا۔ آپ وہ ہیں جن کا نام اور کنیت رسولؐ اﷲ نے رکھی ہے۔ آپ کی خاطر زمین لپیٹ دی جائے گی۔ عرض کیا گیا: قائم کا نام قائم کیوں ہے ؟ فرمایا: آپ موت کے بعد (غیبت کے بعد) قیام فرما ہوں گے۔ کچھ لوگ آپ کی امامت کے قائل مرتد ہوجائیں گے۔ منتظر اس لیے ہیں کہ آپ کی غیبت لمبی ہوجائے گی۔ مخلص آپ کے خروج کا انتظا کریں گے۔ شکی انکار کریں گے۔ عجلت طلب ہلاک ہوں گے۔ امام علی نقیؑ نے فرمایا: جب تمہارے صاحب (امام زمانہؑ) ظالموں کے گھر سے غائب ہوجائیں تو خروج کی توقع رکھنا۔ لوگ آپ کے بارے میں کہیں گے کہ آپ پیدا نہیں ہوئے۔ احمد بن اسحاق امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں یہ پوچھنے کے لیے حاضر ہوئے کہ آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہوگا۔ جب امام نے امام زمانہؑ کو دیکھا تو سوال کرنے سے پہلے فرمایا: اس کی مثال خضر اور ذوالقرنینؑ کی سی ہے۔ خضر نے آب حیات پیا وہ زندہ ہیں۔ (اسرافیل کے) صور پھونکنے تک نہیں مریں گے۔ ہر سال حج کے زمانے میں عرفہ کے مقام پر تشریف لاتے ہیں اور مومن کی دعا کے وقت آمین کہتے ہیں۔

علامات وقت ظہور امام مہدیؑ
روی یحیٰی بن ابیطالب عن علی بن عاصم عن عطاء بن السائب عن ابیہ عن عبداللّٰہ بن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: لا تقوم الساعۃ حتی یخرج المہدی من ولدی ولا یخرج المھدی حتی یخرج ستون کذاباً کلھم یقولون انا نبی۔
یحییٰ بن ابی طالب نے علی بن عاصم سے، علی نے عطا بن سائب سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے عبداﷲ بن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری اولاد میں سے مہدی کے ظہور ہونے تک قیامت برپا نہیں ہوگا۔ مہدی غیب سے ظاہر نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ ساٹھ جھوٹے نبی ہونے کا دعویٰ نہ کرلیں۔ ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔
قال امام محمد باقر علیہ السلام: لا یخرج المہدی حتی یرقی الظلم۔
امام باقرؑ فرماتے ہیں: حضرت امام مہدی اس وقت تک خروج نہیں کریں گے۔ یہاں تک کہ ظلم ہر جگہ چھا جائے۔
قال رسولؐ: عن ثواب الاعمال عن ابیہ عن علی بن النوفلی عن السکونی عن ابی عبداﷲ علیہ السلام قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سیأتی علی امتی زمان تخبث فیہ سرائرھم و تحسن فیہ علانیتھم طمعاً فی الدنیا لا یریدون بہ ما عند اللّٰہ عزوجل یکون امرھم ریاء لا یخالطہ خوف یعمھم اللّٰہ منہ بعقاب فیدعونہ دعاء الغریق فلا یستجاب لھم۔
ترجمہ: صاحب کتاب ثواب الاعمال اپنے والد سے اس نے علی سے اس نے نوفلی سے اس نے سکونی سے اس نے ابی عبداﷲ ؑسے انہوں نے حضورؐ سے نقل کیا ہے۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ میری امت پر عنقریب ایسا زمانہ آئے گا جس میں دنیا کی طمع میں اسرار ان کے نزدیک ناپسند اور اعلانیہ طور پر دنیا کی چاہت اچھی لگے گی۔ اس زمانے میں وہ لوگ نہیں چاہیں گے اس چیز کو جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ان کے کام دیکھاوے پر مبنی ہوں گے۔ اس خوف سے جو اﷲ تعالیٰ نے عتاب (سزا) کے ذریعے عام کیا ہوا ہے۔ مغالطہ نہیں ہوگا۔ اس زمانے میں وہ لوگ غرق ہونے والے کی طرح اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہ ہوگی۔

ثواب الاعمال بالاسناد المذکور قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سیأتی زمان علی امتی لا یبقی من القرآن الا رسمہ ولا من الاسلام الا اسمہ یسمون بہ و ھم ابعد الناس منہ مساجدھم عامرۃ وھی خراب من الھدی فقہاء ذالک الزمان شر فقہاء تحت ظل السمآء منھم خرجت الفتنۃ والیہم تعود۔
مذکورہ اسناد کے ذریعے روایت کی گئی ہے۔ رسولؐ نے فرمایا: عنقریب میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں قرآن کا رسم الخط اور اسلام کا نام باقی رہے گا۔ اسی کے ذریعے نام رکھا جاتا ہے۔ جبکہ وہ لوگ اسلام سے بہت دور ہوں گے۔ ان کی مساجد تعمیری حد تک ہوں گی، ہدایت سے خالی ہوں گی۔ اس زمانے کے فقیہ آسمان کے نیچے شریر ترین مخلوق ہوں گے جن سے فتنہ برپا ہوگا اور انہی کی طرف پلٹے گا۔
جماعۃ عن جعفر بن محمد بن العباس الدوری عن ابیہ قال قال ابوجعفر بن بابویہ عن محمد بن ابراہیم بن اسحاق بن یحیٰی الجلودی عن الحسین بن معاذ عن قیس بن حفص عن یونس بن ارقم عن ابی سیار الشیبانی عن الضحاک بن مزاحم عن النزال بن سیرۃ قال: خطبنا علی بن ابی طالب علیہ السلام فقال: سلونی قبل ان تفقدونی۔ فقام معصعۃ بن صوحان فقال: یا امیر المومنین متی یخرج الدجال؟ فقال ما المسئول عنہ باعلم من السائل، لکن لذلک علامات و ھیئات یتبع بعضھم بعضاً و ان علامۃ ذلک اذا فات (امات نخ البحار) الناس الصلوات و اضاعوا الامانۃ واستحلوا الکذب واکلوا الربوا و شیدو ا البنیان، و باعوا الدین بالدنیا واستعملوا السفھاء وشاوروا النساء و قطعوا الارحام واتبعوا الا ھواء واستخفوا الدماء و کان الحلم ضعفاً والظلم فخراً و کانت الامراء فجرۃ والوزراء ظلمۃ والعلما خؤنۃ والقراء فسقۃ و ظھرت شہادۃ الزور واستعلن الفجور و قیل (قول نخ البحار) البھتان والإثم والطغیان وحلیت المصاحف و زخرفت المساجد وطولت المنارۃ واکرم الاشرار واز رحمت الصفوف واختلفت القلوب و نقضت العھود واقترب الموعود و شارکت النساء ازواجھن فی التجارۃ حرصاً علی الدنیا و علت اصوات الفساق واستمع منھم و کان زعیم القوم ارذلھم واتقی الفاجر مخافۃ الشرہ و صدق الکاذب وائتمن الخائن واتخذ القینات و تشبہ الرجال بالنساء والنساء بالرجال و یشھد الشاھد من غیر ان یستشھد و شھد الآخر قضائً الذمام لغیر حقّ عرفہ، و تفقہ لغیر الدین و اثرو عمل الدنیا علی عمل الاخرۃ و بسوا اجلود الضأن علی قلوب الذئاب و قلوبھم انتن من الجیف و امر من الصبر فعند ذالک الوحاء الوحاتم العجل العجل خیر المساکن یومئذٍ بیت المقدس لیأتین علی زمان یتمنی احد انھم من سکانہ الخ والحدیث طویل و فیہ ذکر الدجال و صفتہ و مکان خروجہ و ان اولیائہ اولاد الزنا، واصحاب الطیالسۃ الخضر یقتلہ اللّٰہ بالشام علی عقبۃ تعرف بعقبہ افیق لثلث ساعات من یوم الجمعۃ علی یدمن یصلی المسیح عیسٰی بن مریم خلفہ و فیہ ذکر دابّۃ الارض و فی آخرۃ قال: قال النزال فقلت لصعصعۃ بن صوحان ما عنی امیر المومنینؑ بھذا القول ؟ فقال: انّ الّذی یصلّی عیسٰی بن مریم خلفہ ھوالثانی عشر من العترۃ التاسع من ولد الحسینؑ و ھوالشمس الطالعۃ من مغربھا یظھر عند الرکن و المقام فیطھر الارض و یضع میزان العدل فلا یظلم احد احدا۔
ترجمہ: ایک گروہ نے جعفر بن محمد سے اس نے محمد بن عباس الدوری سے اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ابو جعفر بن بابویہ نے محمد بن ابراہیم بن اسحاق بن یحییٰ اجلودی سے نقل کیا ہے۔ اس نے حسین بن معاذ سے اس نے قیس بن حفص سے اس نے یونس بن ارقم سے اس نے ابی سیار الشیبانی سے اس نے ضحاک بن مزاہم سے اس نے نزال بن سیرہ سے نقل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب ؑنے خطبہ میں فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے سوال کرو۔ اس سے پہلے کہ میں تم میں نہ رہوں۔ تو معصعہ بن صوحان کھڑا ہوا اور کہا: اے امیر المومنینؑ دجال کب خروج کرے گا ؟ پس فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے۔ وہ سوال کرنے والے سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے لیکن اس کی بہت سی علامات ہیں۔ افسوس ان میں بعض، بعض کی پیروی کریں گے اور اس کی علامات یہ ہیں کہ جب لوگ نماز کو زندہ نہ رہنے دیں گے اور امانت ضائع کریں گے۔ جھوٹ کو حلال سمجھیں گے۔ سود کھائیں گے۔ لوگ دین کو دنیا کے بدلے بیچیں گے۔ بیوقوفوں کو اپنا حاکم بنائیں گے۔ عورتوں سے مشورے لیں گے۔ قطع رحمی کریں گے۔ خواہشاب کی پیروی کریں گے۔ اور حلم و بردباری کو کمزور سمجھا جائے گا۔ ظلم و ستم پر فخر کیا جائے گا۔ حاکم فاجر اور بدکار ہوں گے۔ ظالم لوگ وزراء ہوں گے۔ علما خیانت کار اور قراء فاسق ہوں گے۔ جھوٹی گواہیاں دی جائیںگی۔ علی الاعلان فسق و فجور، بہتان، گناہ اور سرکشی و طغیان ہوگا۔ قرآن آراستہ کیے جائیں گے۔ مسجدوں کو سونے چاندی اور نقش و نگار سے مزین کیا جائے گا اور ان کے اونچے اونچے مینار ہوں گے۔ برے لوگوں کی عزت ہوگی اور نماز کی صفوں میں لوگ تو بہت ہوں گے لیکن ان کی خواہشات مختلف ہوں گی۔ معاہدے توڑے جائیں گے جس کا وعدہ ہے وہ قریب ہوگی۔ دنیا کی لالچ میں عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ تجارت میں شریک ہوں گی۔ فاسقوں کی آواز تیز ہوگی اور سنی جائے گی۔ قوم کا رہبر وہ ہوگا جو اس قوم میں زیادہ پست اور ذلیل ہوگا۔ بروں سے ان کے شر کے خوف سے ڈرا جائے گا۔ جھوٹے کی تصدیق ہوگی۔ خیانت کار کو امین بنایا جائے گا۔ گانے بجانے کے آلات خریدے جائیں گے۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرلیں گے۔ گواہ بنائے گئے بغیر گواہی دی جائے گی۔ گواہی بغیر حق کو پہچانے ہوئے دی جائے گی۔ دین سکھایا جائے گا مگر دین کی خاطر نہیں۔ دنیا کے عمل کو آخرت پر ترجیح دی جائے گی۔ بھیڑ کی کھال بھیڑیے پہن لیں گے جبکہ ان کے دل مردار سے زیادہ متعفن ہوچکے ہوں گے۔ صبر کرنا مشکل ہوگا۔ اس وقت سے ڈرنا، ڈرنا اور جلدی کرنا جلدی۔ اس زمانے میں بہترین ٹھہرنے کی جگہ بیت المقدس ہوگی۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ہر شخص تمنا کرے گا کہ کاش وہاں کا رہنے والا ہوتا۔ حدیث طویل ہے۔ اس حدیث میں دجال کی صفت اور اس کے خروج کی جگہ ذکر کی گئی ہے۔ دجال کے دوست زنازادے ہوں گے اور اس کے اصحاب ہری چادر پہنے ہوئے ہوں گے۔ جمعہ کے روز تیسرے پہر آپؑ کے ہاتھوں شام میں عقبہ (جو کہ عقیق کے نام سے پہچانا جاتا ہے ) کے مقام پر قتل کیا جائے گا۔ عیسیٰ ابن مریم آپؑ کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور اسی خطبے میں زمین پر رینگنے والے جانداروں کا بھی ذکر ہے۔ ایک اور قول میں ہے کہ نزال نے کہا: میں نے صعصعہ بن صوحان سے کہا کہ امیر المومنینؑ کے اس قول سے کیا مراد ہے۔ پس اس نے کہا بے شک وہ شخص جس کے پیچھے عیسیٰ بن مریم نماز پڑھے گا وہ ہستی عترت طاہرین میںسے بارہواں حسین بن علی کی اولاد میں سے نواں ہوگا اور وہ ایک ایسا سورج ہے جو مغرب سے طلوع یعنی رکن و مقام کے نزدیک سے ظاہر ہوگا۔ پس وہ روئے زمین کو پاک کرے گا اور روئے زمین پر میزان عدل قرار دے گا۔ پس کوئی بھی ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرے گا۔
عن ابی جعفر رضی اللّٰہ عنہ قال: اذا تشبہ الرجال بالنساء والنساء بالرجال و رکبت ذوات الفروج السروج و امات الناس الصلوات واتبعوا الشھوٰت واستخفوا بالدما و تعاملوا بالربا و تظاھروا بالزنا و شیدوا البناء واستحلوا الکذب و اخذوا الرشا واتبعوا الھوی و باعوا الدین بالدنیا و قطعوا الارحام وصنعوا بالطعام و کان الحلم ضعفاً والظلم فخراً والأمراء فجرۃ والوزراء کذبۃ والأمنا خؤنۃ والأعوان ظلمۃ والقراء فسقۃ وظھر الجور و کثر الطلاق و بدا الفجور و قبلت شھادۃ الزور و شرب الخمور و رکبت الذکور الذکور واستغنت النساء بالنساء واتخذ الفی مغنماً والصدقۃ مغرماً واتقی الأشرار مخافۃ السنتھم و خرج السفیانی من الشام والیمانی من الیمن و خسف بالبیداء بین مکۃ و المدینۃ و قتل غلام من آل محمدؐ بین الرکن وا لمقام صاح صائح من السمآء بان الحق معہ و مع اتباعہ قال فاذا خرج اسند ظہرہ الٰی الکعبہ واجتمع الیہ ثلثماۃ و ثلاثۃ عشر رجلا من اتباعہ فاول ماینطق بہ ھذہ الآیہ بقیۃ اللّٰہ خیرلکم ان کنتم مومنین ثم یقول انا بقیۃ اللّٰہ و خلیفتہ و حجتہ علیکم فلا یسلم علیہ احد الاّ قال السلام علیک یا بقیۃ اللّٰہ فی الارض فاذا اجتمع عندہ العقد عشرۃ آلاف رجل فلایبقی یہودی ولا نصرانی ولا احد فمن یعبد غیر اللّٰہ تعالٰی الاّ آمن بہ و صدقہ و تکون الملۃ واحدۃ ملۃ الاسلام و کل ما کان فی الارض من معبود سوی اللّٰہ تعالٰی تنزل علیہ نارُ ٗ من السمآء تحرقہ۔
ترجمہ: ابوجعفرؓ کہتے ہیں جب مر دعورتوں کے اور عورتیں مردوں کے مشابہ ہوںجائیں گی۔ عورتیں گھوڑوں کی سواری کریں گی۔ لوگ نماز نہیں پڑھیں گے۔ خواہشات کی پیروی کریں گے۔ خون بہانے کو معمولی بات سمجھیں گے۔ سود کو حلال سمجھا جائے گا۔ زنا معمولی بات سمجھیں گے۔ مکان مضبوط بنائیں گے۔ جھوٹ حلال جانیں گے۔ رشوت لیں گے۔ دین کو دنیا کے بدلے فروخت کریں گے۔ قطع رحمی کریں گے۔ کھانا کھلانے میں بخل کریں گے۔ نرمی اور بردباری کمزور پڑجائے گی۔ ظلم کرنا فخر جانیں گے۔ امیر فاجر ہوں گے۔ وزیر جھوٹے ہوں گے۔ امین خائن ہوں گے۔ مددگار ظالم ہوں گے۔ قاری فاسق ہوں گے۔ ظلم و ستم عام ہوگا۔ طلاقیں زیادہ ہوں گی۔ فجور عام ہوگا۔ جھوٹی گواہیاں قبول ہوں گی۔ شراب پی جائے گی۔ مرد مردوں سے جنسی تسکین اور عورتیں عورتوں سے جنسی تسکین حاصل کریں گی۔ فیی کو مال غنیمت میں شمار کریں گے۔ صدقہ دینے کو بوجھ محسوس کریں گے۔ برے لوگوں سے ان کی زبان کے خوف سے تقیہ کیا جائے گا۔ سفیانی شام سے اور یمنی یمن سے خروج کریں گے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام بیدآء میں لوگ مخسوف ہوں گے۔ (زمین میں) دھنس جائیں گے۔
سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی آل سے ایک جوان رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان قتل کیا جائے گا۔ آسمان سے آواز آئے گی کہ وہ جوان اور اس کے ساتھی حق پر ہیں۔ جب آپ تشریف لائیں گے تو کعبہ کے ساتھ تکیہ لگائیں گے اور آپ کے تابعدار ۳۱۳ کی تعداد میں وہاں جمع ہوں گے۔ آپ سب سے پہلے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائیں گے۔ تمہارے لیے بقیۃ اﷲ بہتر ہے۔ اگر تم مومن ہو تمہارے لیے بہتر ہے۔ پھر فرمائیں گے میں بقیۃ اﷲ ہوں۔ اس کا خلیفہ ہوں۔ تم پر حجت ہوں جو بھی آپ کو سلام کہے گا وہ کہے گا:
السلام علیک یا بقیۃ اللّٰہ فی الارض۔
اے بقیتہ اﷲ آپ پر سلام ہو۔
جب آپ کے پاس دس ہزار کا اجتماع ہوگا تو کوئی یہودی،نصرانی اور جو بھی غیر اﷲ کی عبادت کرنے والا ہے۔ زمین پر باقی نہ رہے گا۔ مگر ایمان لائے گا اور تصدیق کرے گا اور صرف ملت اسلامیہ باقی رہے گی۔ اﷲ کے سوا جو بھی معبود ہوگا اس پر آسمان سے آگ نازل ہوگی اور اس کو جلاکر رکھ دے گی۔ واﷲ اعلم
و عن سلیم ابن قیس قال علی علیہ السلام: یاتی علی الناس زمان لا یقرب فیہ الاالماحل ولایظھر فیہ الا الفاجر ولا یضعف فیہ الا المنصف یعدون الصدقۃ فیہ غرماً و ملۃ الرحم منافسۃ والعبادہ استطالۃ علی الناس فعند ذالک یکون السلطان بمشورۃ النساء و امارۃ الصبیان و تدبیر الخصیان
سلیم ابن قیس سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہوگا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا جو فاسق و فاجر ہو اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا۔ صدقے کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کے لیے ہوگی۔ ایسے زمانہ میں حکومت کا دارو مدار عورتوں کے مشورے، نوخیز لڑکوں کی کارفرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہوگا۔