شرعی مسا ئل اور ان کا حل


نمازکے متعلق سوالات
جماعت کے متعلق سوالات

جواب: جماعت کے دوران اگر مقتدی امام کی دوسری رکعت میں پہنچے یا تیسری یا آخری رکعت میں ۔ جماعت کے احترام میں تمام اضافی عمل روا ہے تاہم یہ خیال رکھا جائے کہ کوئی رکن ادا ہونے سے نہ رہ جائے۔ چنانچہ دوسری رکعت میں پہنچنے والے مقتدی کو قنوت اور دو اضافی تشہداضافی ارکان کے طور پر ادا کرنے پڑینگے جو جماعت کے احترام اور اقتداء کے باعث روا ہیں۔ لیکن امام کی تیسری رکعت اور اپنی دوسری رکعت کے بعد وہ تشہد کیلئے بیٹھیں گے ورنہ اس کا رکن ادا ہونے سے رہ جائےگا۔ اسی طرح امام کے سلام پھیرتے ہی امام کی اقتدا کی بجائے وہ اپنی باقی ماندہ رکعات کیلئے اٹھے گا تاکہ باقی ارکان کو پورا کیا جاسکے۔ اس عمل سے بھی ظاہر ہوا کہ امام کی اقتدا کسی واجب رکن کو چھوڑ کر جائز نہیں۔ امام کی تیسری رکعت میں پہنچنے والے مقتدی کیلئے سورہ الحمد شریف کیساتھ ایک چھوٹی سی سورہ جلدی پڑھنی چاہئے تاہم اگر وقت نہ بچے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ امام کے رکوع کا ملنا ہی پوری رکعت ملنے کے برابر ہے ۔ امام کی تیسری رکعت میں پہنچنے والے کیلئے کوئی اور اضافی عمل نہیں۔ امام کی چوتھی رکعت میں پہنچے والے مقتدی کیلئے ایک اضافی تشہد ادا کرنا پڑے گا ۔ امام کے سلام پھیرتے ہی مقتدی کی دوسری رکعت شروع ہوگی جو وہ حسب طریقہ مکمل کرےگا۔

جواب: فقہ الاحوط کے مطابق موافقت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ موافقت کا مطلب یہ ہے کہ امام کے حرکات و سکنات کی پیروی کی جائے لیکن دیگر واجبی افعال جن میں قرات وغیرہ ادا کرے ۔
جواب۔ بحیثیت مسلمان نماز جماعت حرام نہیں ہے تاہم چونکہ عقائد اور سب سے بڑھ کر دیگر مسالک کے ہاں استنجا و استبرا پانی سے ضروری نہیں ہے اور فقہ الاحوط کے مطابق وضو سے قبل استنجا و استبرا کا حکم صراحتا موجود ہے ۔ اس حکم کی روشنی میں یہ جماعت درست نہیں ہوگی۔
نماز کے ارکان سے متعلق سوالات
جواب: اپنی زندگی کی قضا نمازوں کی تعداد معلوم کرنے کا کوئی شرعی طریقہ موجود نہیں ہے۔ یہ آپ کو خود اندازہ لگانا ہے کہ کتنی نمازیں رہتی ہیں۔ ان نمازوں کی آسانی سے ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے ساتھ چار یا پانچ قضا بھی پڑھ لی جائے۔ اگر آپ ایک سال تک ہر فرض نماز کے ساتھ پانچ قضا بھی پڑھ لیتے ہیں تو ایک سال کے بعد آپ کے پانچ سال کی قضا نمازیں بھی ادا ہونگی۔
جواب: فرض نمازیں پانچ وقت کی نمازیں ہیں۔ ان کو ہر حال میں پڑھنا لازمی ہے۔ باقی نمازیں سنن راتبہ یا نوافل ہیں۔ ان کو پڑھنا باعث ثواب ہے۔ جان بوجھ کر چھوڑنے میں بھی قباحت ہے۔ تاہم اگر نوکری یا دیگر شرعی مجبوریوں کی وجہ سے نوافل یا سنتیں نہ پڑھ سکیں تو گناہ نہیں ہے۔ حتی الامکان کوشش کی جائے کہ یہ سنت نمازیں بھی پڑھ لیں۔
جواب: امیر کبیر سید علی ہمدانی نے دعوات صوفیہ امامیہ میں نماز مغرب کے بعد یہ دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ اس تعلیم کا مرجع حدیث رسول ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نبی ﷺ نے مسکین کی حالت میں زندہ رہنے ، مسکینی کی حالت میں وفات پانے اور مسکینوں کے حشر کی دعا فرمائی۔ (صحيح الترمذي:2352) اس دعائے شریفہ میں مسکین سے مراد غربت کی مانگ نہیں بلکہ یہاں نبی ﷺ کا مقصود تواضع اور اپنے رب کے لئے عاجزی کا اظہار ہے ۔ اس سے نبی ﷺ اپنی امت کو تواضع اختیار کرنے اور کبروغرور سے دور رہنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔تو یہاں اس قسم کے مسکین کے درجات کی بلندی اور ان کا اپنے رب سے قربت پر متبنہ کرنا مقصود ہے۔
جواب: سجدہ گاہ کے حوالے سے فقہ الاحوط میں مجتہدعلیہ الرحمہ کا فرمان ہے۔ سجدہ گاہ کا پاک ہونا اور غصب شدہ نہ ہونا نماز کی شرائط میں سے ہے۔ اگر وقت کم ہواور اسی غصب شدہ جگہ کے علاوہ دوسری جگہ نہ ملے تو مکروہ طور پر اس پر نماز جائز ہے۔ دوسری جگہ فرمایا اگر کوئی ایسی پاک جگہ نہ ملے جہاں قیام وسجود آسانی سے اداہوسکے تو (کم از کم )سجدہ گاہ کا پاک ہونا ضروری ہے باقی جگہ اگر خشک ہواور ان کی تری جسم، کپڑا تک نہ پہنچے تو (ایسی صورت میں )ناپاک ہوتے ہوئے بھی ضرورت کی بناء پر نماز جائز ہے۔ اگر اتنی مقدار میں بھی پاک جگہ نہ ملے تو نماز اشارے سے اداکی جائے۔ ایک اور جگہ فرمایا سجدہ گاہ قیام کی جگہ کی سطح کے برابر ہو یا نیچی ہو اگر ایک اینٹ کے برابراونچی ہو جائے تو حرج نہیں شاہ سید محمد نوربخش علیہ الرحمہ اور امیر کبیر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ سمیت کسی بھی بزرگان دین نے ہمیں الگ سے سجدہ گاہ لگانے کانہ حکم دیا ہے اور نہ منع کیا ہے۔ نوربخشی تعلیمات کے مطابق سجدہ گاہ کا پاک ہونا نماز کی درستی کیلئے شرط ہے۔ سجدہ گاہ کی پاکی کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک تو وہ جگہ ظاہری ناپاکی سے دور ہو ثانیا وہ جگہ غصبی نہ ہو۔ ان دونوں صورتوں میں نماز نہیں ہوگی۔
اپنے تبصرے/ سوالات بھیجنے کے لیے نیچے دیا گیا فارم استعمال کریں۔
شکایات بھیجنے کے لیے یہاں کلک کریں